خیالِ رزق ہے رازق کا خیال نہیں

اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بالخصوص ہم مسلمانوں کو حلال کمانے اور کھانے کا حکم دیا ہے۔

مگرافسوس آج بھی کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز کیوں حلال ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟

حلال رزق کھانے کے بے شمار فوائد ہیں،

جب حلال لقمہ انسان کے پیٹ میں جاتا ہے تو اس سے خیر اور بھلائی پھیلتی ہے۔ وہ  لقمہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتا ہے۔ حلال رزق کھانے والے کی دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ اسے ہر وقت خوف خدا رہتا ہے۔ اسے آخرت کی فکر رہتی ہے۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز، روزہ، حج اور دیگر فرائض کاذکر کیا ہے اسی طرح حلال رزق کھانے اور کمانے کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس طرح باقی فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح حلال رزق کھانا اور کمانا بھی ضروری ہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام آئے ہیں ان سب کو بھی حلال رزق کھانے اور کمانے کا حکم دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور اچھے اعمال کرو یقیناً میں تمہارے تمام اعمال سے با خبر ہوں‘‘۔ اس آیت میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے تا کہ پتہ چلے لوگوں کو کہ ہر نبی اور رسول کو یہ حکم ملا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی تم بھی پاکیزہ رزق کھاؤ، تمہاری امت بھی رزقِ حلال کھائے۔ کھانا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔

اس آیت مبارکہ میں عبادت اور رزق حلال کو اس لیئے ساتھ ساتھ لایا گیا ہے کہ عبادت کا تعلق حلال رزق سے ہے جب آپ کا کھانا حلال ہوگا عبادت آسانی سے ہو جائے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کچھ لوگ لمبے لمبے سفر پر روانہ ہوتے ہیں لیکن ان کا کھانا پینا کپڑے سب حرام ہوتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو ان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ جب ہر چیز حرام ہوگی تو دعا کہاں سے قبول ہوگی ؟۔

اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔۔۔انسان کی فطرت اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ آسائش سے بھری زندگی بسر کرے۔ کبھی کبھی انسان پر عیش و عشرت سے زندگی گزارنے کا اتنا جنون سوارجاتا ہے کہ وہ حلال حرام میں فرق کرنا بھول جاتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بار بار حلال رزق کھانے اور کمانے کا حکم دیتا ہے لیکن کچھ لوگوں کی عقلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور ان کو فرق محسوس نہیں ہوتا حلال و حرام کا،،

ارشاد نبویﷺ ہے کہ۔۔۔۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی بہن ام عبداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں افطاری کے وقت دودھ کا ایک پیالہ بھیجا۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔ سخت گرمی اور طویل دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ قاصد کو دے کر واپس بھیج دیا کہ یہ پوچھ کر آؤ کہ یہ دودھ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ اُم عبداللہ نے جواب میں فرمایا کہ یہ دودھ میری بکری سے حاصل ہوا ہے۔ قاصد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کو واپس بھیج دیا کہ یہ معلوم کرو یہ بکری تمہیں کہاں سے ملی ہے؟ تو اُم عبداللہ نے جواب میں فرمایا کہ یہ بکری میں نے خریدی ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پی لیا دوسرے دن اُم عبداللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا میں نے سخت گرمی اور طویل دن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ بھیجا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ واپس کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رسولوں کو یہ ہی حکم ہے کہ سوائے پاکیزہ چیز کے کچھ نہ کھاؤ سوائے نیک اعمال کے کچھ نہ کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو فرمایا ’’اے لوگوں تم زمین میں صرف وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاک ہوں۔

خدا کو بھول گئے لوگ فکرِ روزی میں

خیالِ رزق ہے رازق کا خیال نہیں