روشن چراغ

دنیا میں آنے کے بعد انسان کا تعلق بہت سے رشتوں سے جڑ جاتا ہے جس میں نہ صرف خونی رشتے شامل ہوتے ہیں بلکہ روحانی رشتے بھی ہوتے ہیں۔ جو انسان کو معاشرے کے ہر اچھے اور برے پہلو سے آگاہ کرتے ہیں۔ تہذیب و تمدن، اخلاقیات، ثقافت اور معاشرتی اقدار کا پابند بناتے ہیں۔ استاد اس میں وہ صف اول شخصیت ہیں جو کسی بھی فرد کو علم کے ذریعے تراش کے ہیرا بنا دیتے ہیں۔ انہی کی بدولت انسان فرش سے عرش تک کا سفر طے کرتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان حتی کہ ہر میدان میں کامیاب ہونے والےشخص کے پیچھے کتنے ہی اساتذہ کی محنت شامل ہوتی ہے۔ استاد کا مقام ماں باپ کی طرح ہی بلند و بالا ہے کیونکہ وہ اسے لوہے کی طرح تپا کر کندن بنا دیتے ہیں۔

پرانے وقتوں میں لوگ میلوں سفر طے کر کے علم حاصل کرتے تھے۔ اور اساتذہ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ ان کے برابر بیٹھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ استاد کی بات خاموشی سے سننا اور چوں تک نہ کرنا اور مذاق اڑانا تو دور کی بات ان سے نظر ملا کر بات بھی نہیں کی جاتی تھی۔

لیکن جیسے ہی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ دنیا نے جددیت کی طرف رخ کیا۔ پھر تہذیب ادب وآداب سب بدل گئے۔ اسی طرح لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب استاد کو وہ عزت و تکریم نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے۔ ماسواۓ ایک تنخواہ دار ملازم کے طلبہ کی نظر میں استاد کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس سوچ کو پیدا کرنے والے سب سے بڑے ذمہ دار میڈیا اور والدین ہیں۔ بچوں پر استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کو والدین خود ہی برداشت نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے تعلیمی ادارے، مدارس اور یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود آج کی نسل ادب اور اخلاقیات سے خالی ہے۔

ہم نے استاد کے علم کا فائدہ صرف ڈگری حاصل کرنے تک کے لیے محدود کر دیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے معاشرے میں بڑے پیمانے میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان اور ایسے ہی کتنے لوگ ہیں جو اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں لیکن افسوس کے اچھی تعلیم تو ہے پر اچھے اخلاق کی ہر درجہ کمی ہے۔ استاد کی عزت و تکریم انسان کو کامیابی اور کامرانی کا حقیقی سفر طے کرواتی ہے۔

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے