شہرِِ مظلوم

برائی بذات خود اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی بس نیکیاں نہیں ہو رہی ہوں تو بدی پھیل جاتی ہے اسطرح اندھیرا کوئی چیز نہیں روشنی کا نہ ہونا اندھیرا کہلاتا ہے ایک چراغ بھی جلا دیا جائے تو اندھیرا اپنا وجود کھودیتا ہے اس مظلوم شہر کراچی کو بھی ایک روشن چراغ کی ضرورت ہے ایسی قابل اورباصلاحیت قیادت کی ضرورت ہے جو دیانتداری اورذہانت سے اس شہر کو دوبارہ سےتعمیر کردے عصبیت کے بتوں کو توڑ ڈالے اقربا پروری ظلم و ناانصافی کو عدل وانصاف سے بدل دے عوام کے حقوق کی پاسداری کرے اور قانون کی بالادستی قائم کرے۔

بد قسمتی سے کئی دھائیوں سے ہمارے ملک میں نسلی حکومتوں کا دور دورہ ہےبابا صاحب، بھائی، بی بی جی کی سیاست نے سب سے زیادہ کراچی کے بلدیاتی ڈھانچے کو بری طرح متاثرکیا ہے کراچی جو پورے ملک کی معیشت کوچلاتا ہے آج مشکل صورتحال سےدوچار ہے کوئی اسکا پرسان حال نہیں وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ان حکومتوں نے اس شہر کو کرپشن کے علاوہ کچھ نہ دیا اسکی عوام بھاری ٹیکسز ادا کرنے کے بعد بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ان پارٹیز کے منتخب نمائندے کئی سالوں تک کراچی شہرکے میئر اور ڈپٹی میئررہ چکے ہیں لیکن کام نہ ہونے کے برابر ہے آج بھی انکے نمائندے سینٹ میں براجمان ہیں کراچی کی حالت زار پر احتجاج کرنے کے بجائے حکومتی مراعات میں گُم ہیں ان ہی کی درخواست پربلدیاتی الیکشن التوا کا شکار ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پر تعیش وقت گزارا جاسکے تمام ملکوں میں ادارے قانون کے تحت چلتے ہیں مگر یہاں عہدے قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں انکا مزاج جاگیر دارانہ ہے انہیں بادشاہت کی عادت ہے عوام انکی بد ترین کارکردگی کی وجہ سے انہیں مسترد کرچکے ہیں جب حکومت وقت میں یہ خرابیاں پیدا ہو جائیں تو عوام میں ظلم و ستم پھیل جاتا ہےجسکا شکار شہر کراچی ہوچکا ہےخاص طور پر کراچی بلدیاتی اداروں کی حالت کسی سےڈھکی چھپی نہیں پوری دنیا میں بلدیاتی اداروں کو سیاست سے علیحدہ رکھا جاتا ہے تاکہ گلی محلوں میں عوام کے منتخب اراکین بغیر درخواستوں کے بھی ہر خاص و عام کے مسائل حل کرسکیں صفائی ستھرائی کا جائزہ لے سکیں مگر شہر کراچی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، ابلتے گٹر، تعفن پھیلاتے نالے، ٹوٹی سڑکیں حکومت کی نا اہلی کا پتہ دیتی ہیں پھر حالیہ بارشوں نے انکی کرپشن کی کئی دأستانیں رقم کیں مہنگائی کا عذاب قوم پر ڈال کر اب سیلاب زدگان کے ریلیف فنڈز پر نظر رکھی ہوئی ہے بجلی پانی گیس کی عدم دستیابی جیسے بڑے تحفے کراچی کو دیئے سارے ظلم برداشت کرنے کے باوجودکراچی کے شہریوں نے اپنے سیلاب زدگان بھائیوں کے لئیے اپنے دل کھول دیئے اتنی امداد دی جو اس سے پہلے کبھی نہ دی جبکہ اسٹریٹ کرائم کی تعداد کراچی میں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی،

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں حکومتی اہل کاروں کی نا اہلی بھی کسی وقت بھی دکھائی جاسکتی ہے مگر ستم یہ ہے کہ میڈیا بھی ان ہی کی عینک سے دیکھتا ہے کسی بھی واقعے سے عوام کی نظر ہٹانے کیلئے دوسرا بڑا واقعہ پیش کردیا جاتا ہے تاکہ عوام اسکے پیچھے لگ جائیں اور حکام بالا اپنا مطلوبہ ہدف با أسانی پورا کرکے نکل جاتے ہیں اب چونکہ صحافت کا شعبہ بھی لفافوں کی نظر ہوچکا ہے اسلیئے عوام بری طرح بے بس و مجبور نظر أتے ہیں

لیکن اسکے ساتھ ساتھ مؤرخ بھی اپنا کام ذبر دست انداز میں کررہا ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پرانےدیانت داری سے کئے گئےکام کو بھی اج دکھایا جاسکتا ہے اسی خوف کے پیش نظر بلدیاتی الیکشن کو بار بار ملتوی کیا گیاعوام کا حق رائے دہی ایک دفعہ پھر چھین لیا گیاکراچی کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اب عوام جو کراچی کیلئے درد دل رکھتے ہیں سازشوں کے اس دور میں کسی کے بھی پیچھے چل پڑنے سے باز أئیں سیاسی لیڈروں کے دفاع میں لڑائی جھگڑے ترک کریں اور شخصی غلامی سے أزاد ہو کر غیر جانبدارانہ اورمنصفانہ سوچ کو پروان چڑھائیں اس شہر کے ترقی ومستقبل کیلئے ایک دفعہ پھر متحد ہوجائیں کیونکہ کراچی پاکستان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر لسانیت و عصبیت کے اس بت نے ایک مہرہ بھی ہلا دیا تو ملک کا چلنا دشوار گزار ہوگا لہٰذا اس کے لئے ضروری ہے کہ صاف شفاف الیکشن کا انعقاد کرایا جائے چونکہ الیکشن وقت پر کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے اعلیٰ عدالتوں کا حتمی فیصلہ بھی یہی ہے تاکہ بلدیاتی و شہری اداروں کو عوامی منتخب نمائندوں کے ما تحت کیا جائے تاکہ کراچی شہر ایک دفعہ پھر منظم ومتحد ہو کر دنیا کے بارونق شہروں میں شامل ہو جائے۔