ٹرانس جینڈر یا عذاب

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم

ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔

وہ ساخت جس پر انسان نے جسمانی ذہنی روحانی قابلیتوں کا مظہر بنکر عقل فہم کے مطابق نئ نئ ایجادیں کیں، جسکو مکمل کیمیکل، بائیولوجیکل، فزیو تھیراپیکل سے لےکر میڈیکل کی بھرپور توانائی کا شاہکار بنادیا گیا، اس خوبصورت امتزاج کے بعد بھی انسان نے فساد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ عورت اور مرد کی جنس دو متفرق پہلو ہیں، جنکو توڑ کر ہم جنس پرستی کے گھناؤنے عمل نے معاشرے کے خدو خال بگاڑ دیئے۔

ہاران کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام اپنے چچا کے کہنے پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اسی نجز عریانی بے حیائی وبائے ہم جنس پرستی کے مرتکب لوگوں کے لیے نبوت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ خدائے واحد سے اپنی قوم کے لیے دعا فرماتے ہیں، جابجا انکی دعوت جاری رہتی ہے، مگر اس قوم کے لوگوں کی سرکشی عروج پر جا پہنچتی ہے۔

حکم الٰہی سے حضرت لوط علیہ السلام اور انکے مقرب ساتھی بچالیے جاتے ہیں، پتھر کی بارش سے تمام قوم عذاب کی مستحق ٹہرتی ہے، ہر برسنے والا پتھر labled ہوتا ہے، اس فرد کی identity ہوتا ہے۔کیا وہی labled پتھر کہیں ہم تو تیار نہیں کررہے؟

کیا ہم بحیرہ مردار میں غرق ہونے کی تیاری تو نہیں کررہے؟ جسکے مغرب میں اسرائیل اور مشرق میں اردن واقع یے، جسکے پانی میں مینڈک مچھلی سے لے کر کوئی مخلوق زندگی نہیں پاسکتی، جسکی نمکینیت سے اس کے آس پاس کا سب علاقہ بنجر اور مفلوج ہے؟  کیا ہم جنس ہونے کے خمار میں ٹرانس جینڈرز کا قانون پاس کرانے والوں میں ہمارا بھی نام شامل ہے؟  ہائیڈروجن بم، ایٹم بم بنالینے والا انسان جب شیطان کے چیلوں کی روش اختیار کرتا ہے، تو ان بموں سے بھی بدتر خود کو تہس نہس کرڈالتا ہے، اس بنجر زمین پر پھر نہ پودے اگتے ہیں، نہ تجارت ہوسکتی ہے۔

اس شیطانی قانون کے دفاع میں پوری امریکی، مغربی لابی متحد ہے، جسکی دلیل کے لیے عددی اکثریت کو بنیاد بناکر اسلام کے دستور سے متصادم اس قانون کے دفاع کو مستحکم بنایا جارہا ہے۔

ٹرانس جینڈر عورت کا خاندانی معاشرے میں کردار کسی بھی طور ترقیاتی قوم میں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں، جب عورت اپنی جنس کو اصلی جنس کے خلاف ٹرانس پلانٹ کرکے خود کو بطور مرد identify کرے گی، تو حاملہ نہ بن سکے گی، یوں وہ اس مقصد کے لیے کس حد تک جاسکتی ہے، اسکا ایک شرم ناک پہلو موجود ہے،Gender Identity کا حق حاصل ہونے کے بعد معاشرے کی تباہی وراثت کی غلط تقسیم کی صورت میں اصل مرد کو عورت سمجھ کر اور اصل عورت کو مرد سمجھ کر ہوگی، جس سے انصاف کی دھجیاں بھی نظر نہ آئیں گی۔

خواجہ سراوں کے حقوق کے نام پر مغربی ممالک سے چلنے والی این جی اوز اور موجودہ حکومت انکو مدد کے پر جواز بناکر ایک گندے کھیل کا آغاز کرے گی۔

جبکہ خود خواجہ سراوں کے ذہن کے مطابق ایک سروے میں اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ یہ LBGTQ کو عام کرنے کے لیے نیز معاشرے کی خرابی کے لیے بڑی تباہی سے کم نہیں۔

2018 کو بننے والے اس قانون میں 2021 تک 30 ہزار لوگ اپنی جنس تبدیل کرواچکے ہیں،2021 سے 2022 اور پھر 23 کے اعداد و شمار کی بھیانک تاریخیں ہماری خاموش زبان کا مذاق اڑارہی ہیں۔

بحیرہ مردار کی ناقابل برداشت گہرائیوں میں غرق ہونے سے بچنے کے لیے اشد ضروری ہے کہ LBGTQ کے لیے جہاد کریں، قلم، زبان، عدالت کے دروازے، ٹیلی فونک رابطے، مواصلاتی نظام، ٹیکنالوجی سے لبریز ضابطے مفروضے سے لے کر ڈیجیٹل آئیڈیاز سے ممکن بناکر طاغوت کی اس شیطانی وبا کو ایمان افروز جذبے سے فنا کر ڈالیں۔