کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

پاکستان میں موجود کم و بیش 22 کروڑ سے زیادہ افراد کا اگر ذہنی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو مجھ سمیت شاید ہی کوئی ایسا فرد ملے جو مکمل طور پر ایک صحت مند دماغ رکھتا ہو۔ ایک عام انسان سے لیکر اربابِ اختیار و حکومت تک، سارے لوگ کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار نظر آئیں گے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان تمام شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے یا اوپر جانے کی بجائے مسلسل پستی و پسپائی کی جانب گامزن ہے۔

ذہنی دباؤ، خلفشار یا دماغی مالیخولیا کے اسباب تلاش کرنے بیٹھ جایا جائے تو شاید ان کا اجمالی سا ذکر ہی کتابوں کی کتابیں بھر دے لہٰذا ضروری ہے کہ ان گنت اسباب کا ذکر کرنے کی بجائے چند کو ضبطِ تحریر کیا جائے تاکہ سنانے اور سننے والا، پڑھنے اور پڑھانے والا یا دیکھنے اور دکھانے والا بالکل ہی فاطر العقل نہ ہوجائے۔

پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے ہاتھ جب بھی کوئی چھوٹی سے خبر لگ جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی بھی غور طلب مسئلہ رہا ہی نہیں۔ زیادہ تر ایسی خبریں جن کا تعلق سیاست یا سیاستدانوں سے بلا واسطہ ہوتا ہے، پورا الیکٹرونک میڈیا ہر قسم کے روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ اپنی ساری چھریاںِ، خنجر اور تیزدھار آلو سے لیس ہو کر کمرہ بحث و تمحیص میں براجمان ہو جاتا ہے اور عوام الناس اپنے اپنے پسندیدہ چینلوں کو کھول کر کوئی پیٹ دبا کر اور کوئی دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ چینلوں پر بیٹھے اینکرز حضرات کے علاوہ سارے مبصرین و تجزیہ نگار اس ایک ذرا سی خبر پر گھنٹوں کئی کئی ہزار پہلوؤں سے روشنی ڈال رہے ہوتے ہیں۔ پھر اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی آنکھیں ٹی وی اسکرین کی جانب دیکھتے ہوئے لٹوؤں کی طرح گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ خبروں کی سلائیڈز، اینکروں کے سوالات اور ان کی سلائیڈز ایک اور جانب، تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے تبصرے اور ان کی بھی سلائیڈز کسی اور جانب اور جس منظر، عدالتوں میں آنے جانے والوں کی عکس بندیاں اور مجرموں کی کر و فر کے ساتھ عدالتوں میں حاضریوں کی ویڈیوز جب ایک ساتھ ایک چھوٹے سے ٹی وی اسکرین پر چل رہی ہوں تو ناظرین کی آنکھوں کا ریسنگ کاروں کی مانند گردش کرنا تو بہر صورت بنے گا ہی۔

ہر فرد کسی نہ کسی پیر، فقیر، مولوی، مفتی، مولانا، سیاسی پارٹی یا اداروں کے سربراہوں کا مجاور، مقتدی، پجاری اور کاسہ لیس ہوتا ہے۔ اس کے ہر جھوٹ سچ کے پیچھے پیچھے چلنے میں ذہنی سکون محسوس کرتا ہے اور اس کی پوجا، اقتدا اور غلامی اس کے نزدید جیسے حکمِ خدا وندی کا مقام رکھتی ہے جس کی وجہ سے اس کی وہ صلاحیت جو اچھائی یا برائی میں تمیز کرسکتی ہے، اس حد تک مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے کہ مخالفین کا معمولی سا اختلاف بھی بستیاں کی بستیاں اجاڑ دینے کا سبب بن جاتا ہے۔ وہ بنا جانے بوجھے کہ کسی بھی سانحے کا قصوروار کون ہے، 27 دسمبر 2007 کی طرح یہ نہیں دیکھتا کہ بینظیر کس کی سازش کا شکار ہوئی، پورے پاکستان کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیتا ہے۔

کس ملک میں عدالت کے تین، پانچ یا سات ججوں کے فیصلوں میں علی الترتیب ایک، دو یا تین کے اختلافی نوٹ جب ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہو جائیں، جنرل کو عدالت یہ کہے کہ اس کو متعدد بار پھانسی پر چڑھایا جائے اور اسے اپنے آپ کو ریاست سمجھنے والا ادارہ تحفظ فراہم کرے، ایک منتخب وزیر اعظم کو عدالت خط نہ لکھنے پر صرف تین منٹ تک کھڑے رہنے کی سزا سنادے اور پھر بعد میں اس سزا کو اتنا سنگین سمجھے کہ وہ عہدے سے پانچ برس تک سبک دوش کر دیا جائے، ایک منتخب وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کو اتنا بڑا جرم قرار دے دیا جائے کہ وہ تا قیامت نا اہل قرار دیدیا جائے۔ دوسری جانب عالم یہ کہ کسی وزیرِ اعظم (سابقہ) کو سنگین دھمکیوں کے بعد عدالت از خود نوٹس لے، مقررہ تاریخ پر اپنے ہی منہ سے 7 یوم کی مہلت دیدے، پھر سات یوم کے مکمل ہونے کے بعد مزید 14 دن کی توسیع کردے اور ساتھ ہی ساتھ بے نکیل اونٹ کی مانند اسے پورے پاکستان میں ہر عدالت کا مذاق اڑانے کی آزادی بھی دیدے۔ ایک مضبوط ترین ادارہ متعدد بار کسی کے بیان کو ادارے کے ایک ایک سپاہی کیلئے سخت غم و غصے کا سبب قرار دے اور پھر ستو پی کر سوجائے، عدالت کسی کے جسمانی ریمانڈ کی مدت زیادہ سے زیادہ 14 دن قرار دے اور کسی شہر کیلئے کم سے کم مدت 90 دن مقرر کرنے پر بھی خوش رہے، دن دیہاڑے بندے اٹھا لئے جائیں۔

جس ملک میں نوکریاں نہ ملتی ہوں، جس پاکستان میں ایک نہیں کئی کئی پاکستان ہوں، جس ملک میں یہی پتا نہ ہو کہ یہاں کے اصل حکمران کون ہیں، جس ملک کا خرچہ دنیا کے سیکڑوں ممالک اٹھاتے ہوں، جہاں عوامی نمائندے فرخت ہوتے ہوں، جہاں جب چاہے اور جو چاہے کسی کو مار دے اور لوٹ لے، جہاں قانون خود لاقانونیت پر اترا ہوا ہو اور جہاں انصاف کا دور دور تک پتا نہ ہو، اس ملک کے باشندے کس طرح ذہنی بیماریوں اور خلفشار سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہی وہ سارے اسباب ہیں کہ اب جرائم کا دائرہ دیہاتوں اور شہروں سے نکل کر ایک ایک گھر کے اندر تک داخل ہو چکا ہے۔ آخر میں عرض ہے کہ

بک گیا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔