کبھی سوچا کہ اگر ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کے دور میں زندہ ہوتے تو ہم کس کا ساتھ دیتے حضرت امام حسین علیہ السلام کا یا یزید کا؟۔
آج بھی فلسطین کربلا بنی ہوئی ہے اس کے اندر صف ماتم بچھی ہوئی ہے وہاں کے مظلوم مسلمان ہمارے امداد کے منتظر ہیں ہمارے حکمران ہیں کے بس خاموش۔ ہم خود کو حسینیت کے نام لیوا سمجھتے ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے ہی خود کو منسوب کرنا پسند کرتے ہیں۔
لیکن آج مسلمانوں کے حق میں میں ہم کیا آواز اٹھا رہے ہیں؟
واقعہ کربلا ہمیں کیا سبق دیتا ہے؟
یہی نہ کہ حق بات کہو اوراس پرڈٹ جاؤ باطل سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہے اس کے لئے آپ کو اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے،
ہم میں سے ہر فرد یہ دیکھے کہ ہم مضلوم مسلمانوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں
جان سے مال سے، ہم کتنا ایثار کر سکتے ہیں؟
زیادہ کچھ نہیں کر سکتے اپنے اردگرد کے لوگوں کو غزہ کے حالات کے بارے میں آگاہ تو کر سکتے ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیز کی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں؟ اپنے گھر میں دیکھیے آپ کون سا صابن شیمپو استعمال کرتے ہیں آپ کے بچے کون سی آئس کریم کون سے پاپڑ بسکٹ کونسے، چاکلیٹ کون سی کھاتے ہیں اپنے بچوں میں شعور اور آگاہی پھیلا سکتے ہیں۔
آپ کے گھر میں استعمال ہونے والا صرف تو اسرائیلیوں کو کہیں ایندھن فراہم نہیں کر رہا آپ کون سے پیٹرول پمپ سے پٹرول ڈلواتے ہیں۔
ہم بذات خود فلسطین جا کر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے اگر ہم ان کے لیے اپنا پیسہ خرچ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کا بائیکاٹ کریں کہ جن چیزوں سے اسرائیل کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا شروع نہیں کیا تو کہیں نہ کہیں مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام میں ہم بھی حصہ دار ٹھہریں گے۔
اگر آپ خود یہودیوں کی مصنوعات استعمال نہیں کرتے تو یہ بات خود تک محدود مت رکھیے بلکہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں میں اس معلومات کو عام کیجئے۔
اگر آپ فیس بک استعمال کرتے ہیں تو فلسطین کی پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کیجئے اگر آپ واٹس اپ استعمال کرتے ہیں تو فلسطین کی پوسٹ کو اپنے اسٹیٹس پر لگائیں اور لوگوں میں آگاہی پھیلائیں۔
اتنا کر کے ہم اس چڑیا میں شامل تو ہو ہی سکتے ہیں جو اپنی چونچ میں پانی بھر کر ابراہیم علیہ السلام کے لئے جلائی گئی آگ پر ڈال رہی تھی۔