مشترکہ خاندانی نظام رحمت یا زحمت 

ایک مدت سے مشترکہ خاندانی نظام کے حق اور مخالفت میں آراء کا اظہار ہوتا رہا ہے، خود مختار خاندان یا separate فیملی سسٹم بھی موضوع بحث رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حتمی طور پر کسی ایک نظام یا سسٹم کے حق میں فیصلہ دینا در حقیقت زمینی حقائق اور سماجی تقاضوں سے نظر چرانے کے مترادف ہے۔۔۔جتنا جوائنٹ فیملی سسٹم کو تقویت دینے والے دلائل اور اصرار ہر صورتحال اور تناظر میں غلط ہے،اسی طرح یہ ذہن کہ جداگانہ خاندانی نظام ہمارا حق ہے، اور اس پر محاذ کھڑا کر دینا اور “ادھر تم ادھر ہم” کی ناساز گار فضاء بنا دینا بھی ناپختہ ذہن کی علامت اور سماجی مسائل سے لا تعلق ہو جانے کا اعلان ہے،جو کسی طور سراہنے کے قابل نہیں۔

ہم کچھ زمین حقائق سے مدد لیتے ہوئے دیکھیں گے کہ ترازو کا کونسا پلڑا بھاری ہے۔  قارئین ! ذرا ایک ایسی فیملی کو تصور میں لائیے جہاں والدین بوڑھے ہیں ،ایک والدین کی فیملی اور دوسری اپنی فیملی۔ پھر دو ،تین کمانے والوں میں سے کوئی بھی اتنی مستحکم پوزیشن میں نہیں کہ اپنی والدین کی فیملی سمیت تو کیا اکیلے اپنی فیملی کو سپورٹ کر سکے، ایسے میں جوائنٹ سسٹم ایک رحمت ہے ،اگر ایسی فیملی کو دیکھا جائے جہاں کچھ افراد جداگانہ فیملی سسٹم دے کر اپنی فیملی کی کفالت بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں تو وہاں مشترکہ فیملی سسٹم پر اصرار اور اس کی قباحتوں کو نظر انداز کیے جانا انصاف کے بھی منافی ہے اور بے پناہ مسائل کا باعث بھی ہے۔اب ایک ایسی فیملی کو دیکھئے جہاں کچھ افراد اپنی فیملی کو تو جداگانہ سسٹم میں رکھ سکتے ہیں لیکن والدین کی فیملی تنگدستی کا شکار ہے وہاں جداگانہ سسٹم کا فیصلہ یقیناَ خود غرضی پر مبنی ہے۔۔۔گویا ہر فیملی کے حالات و معاملات و مسائل کے تناظر میں ہی یہ فیصلہ کرنا درست ہو گا کہ جوائنٹ سسٹم رحمت ہے کہ جداگانہ نظام۔

بہرحال جہاں عقل اور انصاف مشترکہ نظام کے حق میں فیصلہ دیتے ہوں وہاں اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا ہی عقلمندی ہے اور حساس سوچ کی علامت بھی۔ البتہ تقویٰ کا دامن پکڑے رہنا ضروری ہے تا کہ خواہ مخواہ کے مسائل نہ پیدا ہوں ،ایک فرد کی اجارہ داری کی خواہش بہت سوں کی حق تلفی کا باعث ہے اس لئے مشاورتی سسٹم کو بزور نافذ کرنا قوام ہی کا کام ہے،مشترکہ رہتے ہوئے بھی اپنے اپنے معاملات میں خود مختار ہونے کو یقینی بنانا اور دوسرے کے معاملات میں بلا وجہ مداخلت سے گریز بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے۔ اگر جوائنٹ سسٹم کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہو اور آخرت کی جوابدہی کا خوف موجود ہو تو یہ نظام پرورش و تربیت اولاد کے معاملے میں کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے، بصورت دیگر یہی نظام بچوں کے لئے بھی زہر قاتل ہے اور بڑوں کے لئے بھی درد سر۔

جہاں تک جداگانہ خاندانی نظام کی بات ہے تو اگر حالات اس کی اجازت دیتے ہوں اور معاشی خودانحصاری موجود ہو تو بلا شبہ یہ مثالی نظام ہے، زوجین باہمی مشاورت سے بہترین انداز سے پرورش و تربیت اولاد کے فریضے سے بھی نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی بھی کشا کش کے بغیر اور بوجھ سمجھے بغیر بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ صلہ رحمی کے فروغ میں معاون، قطع تعلقی کی شرح میں حیرت انگیز کمی، بغض وعناد کے خاتمے اور خیر و بھلائی کی سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ضدوعناد، جاہلانہ تعصب سے محفوظ رکھے اور بہترین قوت فیصلہ سے نوازے۔

یہ دعا کرتے رہا کیجئے۔  رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِيْنَ وَاجْعَلْ لَّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِيْنَ۔

ترجمہ: اے میرے رب مجھے کمال علم عطا فرما اور مجھے نیکوں کے ساتھ شامل کراور آئندہ آنے والی نسلوں میں میرا ذکر خیر باقی رکھ (آمین)۔