تکریم نسواں ہے حل‎‎

ایک مقرر ایک حدیث سے نکات نکال کر خواتین کی اصلاح و تربیت فرما رہے تھے۔

جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین اور دینی شعور رکھنے والی لڑکیاں حقوق کے علم اٹھائےہوئے ہیں اور اس ضمن میں رویوں میں لچک ختم ہوتی جا رہی ہے، ایک طرف یہ خواتین ہیں جو اپنے شرعی حقوق وفرائض کی بات کرتی ہیں، دوسری طرف صدیوں سے قائم پختہ سوچ اور تہذیب ہے کہ بہو کو سسرالی رشتوں کی خدمت ایسے ہی کرنی چاہئیے، جیسےاپنےماں، باپ، بہن، بھائیوں کی کرتی ہے۔ بہرحال مقرر صاحب بیان کر رہے تھے کہ ! غزوہ احد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے والد گرامی سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تھے اور اپنے اوپر کچھ قرضہ اور نو بیٹیاں سوگوار چھوڑ گئے تھے تو اپنی بہنوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جابر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو عمر میں پختہ اور پہلے سے شادی شدہ تھیں، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اپنے والد کی شہادت کے بعد اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے میں نے ایک شادی شدہ عورت سے نکاح کیا۔ مجھے یہ بات ناپسند تھی کہ میں اپنی بہنوں پر ان جیسی ہی کوئی لڑکی لے آؤں، میری چاہت تھی کہ میں اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے ایسی عورت سے شادی کروں کہ وہ ان کا خیال رکھے، ان کے بال وغیرہ سنوارے اور ان پر بڑی بن کر رہے۔  (فتح الباری جلد 9 صفحہ 152)

جابر رضی اللہ عنہ نے جب یہ وجہ بیان کی کہ میں نے ثیبہ سے نکاح اپنے گھر کی دیکھ بھال اور بہنوں کی تربیت کے خاطر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور دعا دی، بارک اللہ لک،  اللہ تجھے برکت دے۔ ( فتح الباری جلد 9 )

اس حدیث کے تناظر میں اپنے الفاظ سے ثابت کر رہے تھے کہ قربانی کی بھی اپنی ایک قدر ہوتی ہے، صرف حقوق مانگنے سے گھر نہیں چلتے۔  بجا ہے کہ گھروں کی مضبوطی قربانیاں مانگتی ہے، اور حق سے بڑھ کر ایثار اور احسان کی قدروں کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

حدیث میں بھی حق سے بڑھ کر احسان اور قربانی کی روش تو ظاہر ہو ہی رہی ہے لیکن لطیف پہلو بھی ہے جو نہایت گہرا بھی ہے کہ حدیث میں عورت کی حیثیت مالکہ کی سی اور حکمران کی ہے، راعی کی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کی حیثیت ملازمہ کہ سی ہو جس کی رائے اور مشورے پر عمل کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جا رہا ہو، سر دست! جب اصلاح و تربیت ہی کرنا مقصود ہے تو اس فرسودہ نظام ہی کیوں نہ اصلاح کی جائے جو با شعور اور دین سے بہرہ ور خواتین کو بغاوت پر ابھارنے والا ہے، اس غلط سوچ کی کیوں نہ  نفی کی جائے جو بہو کو اعتماد اور عزت دینے کی بجائے گھٹن اور دباؤ میں رکھ کر زندگی سے متنفر کر دیتی ہے، جب اصلاح ہی مقصود ہے تو ایثار، قربانی، احسان کی اقدار لڑکی کو سکھانے کے ساتھ ساتھ لڑکے اور اس کے گھر والوں کو بھی سکھانے کی بات ہونی چاہیئے۔

کہا جاتا ہے کہ لڑکی کو نیا گھر بسانے کے لیے زیادہ اخوت ومحبت، زیادہ ایثار و قربانی اور احسان کا پلو تھامنا پڑتا ہے، ٹھیک ہے، ہم مان لیتے ہیں کہ لڑکیوں کو لچکدار رویوں کا مظاہرہ کرنا چاہیئے لیکن کیا کیجئے کہ اقتدار کی کرسی پر جب آمر ہو اور عوام کی حیثیت روبوٹ کی سی ہو جائے تو ایسے اقتدار کو جلد یا بدیر غیظ و غضب کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں ورنہ اسمبلیاں ہوں یا گھر، ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔

لہذا جب بیٹوں کی شادی کریں تو جیسے بیٹے کا بٹوارہ بخوشی قبول کیا جاتا ہے، اس کی جسمانی و جنسی ضرورت کو بطریق احسن پورا کیا جاتا ہے، وہیں اس کی ذہنی سکون کا بھی خیال کیجئے اور فیصلہ کر لیجئے کہ بہو اور بھابھی کو دبانے اور مہذب اصطلاح میں تابع فرمان بنانے پر صلاحیتیں صرف کر ے سے زیادہ اسے اعتماد اور عزت دیں، اس کی قدر دانی کریں، بے عزتی، نا قدری، تذلیل کر کے قربانیوں کی آس دوسرے سے رکھنا حد درجہ بے شرمی ہے، بیویوں کو گھر کی ملکہ بنائیں، اس کے مشورہ اور آراء کو اہمیت دیں۔ آپ دیکھئے گا بیوی یا بہوخدمت، ایثار، قربانی کی کیسی کیسی مثالیں رقم کرتی ہے۔ آخر میں اتنا کہوں گی کہ بیوی یا بہو کو اس گدھے کی مانند سمجھنا چھوڑ دیں، جس پر سامان بھی لادا جاتا ہے، ظلم بھی کیا جاتا ہے، بقدر ضرورت ہی کھلایا جاتا ہے۔ لیکن سمجھا گدھا ہی جاتا ہے اور وفاداری کی توقع ہی کی جاتی ہے۔ یقینا عورت قابل تکریم ہے، اسے انسان سمجھا جائے گا تو معدودی چند خواتین کی بجائے تمام سسرال میں بہترین بیوی، بہو اور بھابھی ثابت ہوں گی۔ ان شاءاللہ۔ مشورہ ہے کہ مسند اقتدار پر بیوی اور بہو کو نمایاں مقام پر فائز کیجئے۔ بے شک ایسا کرنے سے احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور انسان کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔