قربانی اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ

جب دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے تو بندہ اپنی سب سےمحبوب چیز بھی قربان کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے،  قربانی ہرطرح کی ہوتی ہے بعض اوقات اپنے جذبوں کی قربانی دی جاتی ہے اپنی خوشی یا غم چھپا کر دوسروں کی خوشی میں خوش رہنایا کئی چیزوں کی پسندیدگی کے باوجود دوسروں کے لئے اپنی پسند سے دستبردار ہو جانا بھی قربانی کا دوسرا نام ہے اور کئی جگہوں پر آپنے آرام وسکون کی قربانی جوکہ ماں باپ اکثر اپنی اولاد کے لئے دے رہے ہوتے ہیں۔ کہیں مال کو کسی کی خوشی یا آسانی فراہم کے لیے صرف کرنا خود کی خواہشات کو قربان کرکے اللہ کی رضا چاہنا، اور اسکی راہ میں جان و عزت لگا دینا عظیم قربانی ہیں۔

اسی جذبے کو یادرکھنے کے لئے اللہ رب العزت نے ذوالحجہ کے مہینے میں جانور کی قربانی ہر صاحب حیثیت شخص پر فرض کر دی ہے۔

حضرت آدم علیہ سلام کے دور سے ہی قربانیاں دی جاتی تھیں، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خواب کے ذریعے قربانی کرنے کا اشارہ ملا اور وہ اسکو اللہ کا حکم سمجھ کر اپنے چہیتے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اپنے بیٹے کو اپنے اس خواب کے بارے میں بتایا تو بیٹا بھی اتنا فرمانبردار، کہا کہ بابا آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے کر گزریں۔حضرت ابراہیم نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو قبلہ رخ لٹایا کہ اتنے میں حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ آگیا اور اللہ کے حکم سے آپ نے دنبے کی قربانی کی اس قربانی کومسلمان سنت ابراہیمی کے طور پر ہر سال کرتے ہیں قربانی کی بہت فضیلت ہے۔

اللہ کی راہ میں قربانی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے اور جس نے اللہ کی راہ میں صحت مند جانور کی قربانی کی قیامت کے دن وہی جانور پل صراط پار کرنے کا باعث بنے گا۔ قربانی سراسر خالص جذبے کی قبولیت ہے جس میں ریاکاری نمودونمائش نہ ہو۔ بلکہ خالصتا اللہ کی رضا مطلوب ہو۔

میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ اللہ کو تمھارے جانوروں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اسکو تمھارا اخلاص پہنچتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ،،،، انہوں نے خالص اللہ کی رضا کے لئے قربانی کی تھی۔ قربانی کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ اللہ کو جانور کا گوشت و خون مطلوب نہیں۔ اسے اخلاص مطلوب ہے اور قربانی کے لئے سات حصے مقرر کر کے اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قربانی میں غریب، یتیم، رشتے داروں اور پڑوسیوں کا حق مقرر کر دیا گیا۔ اس فریضے کی برکت سے سارا سال جو غرباء گوشت کے لئے ترس جاتے ہیں اس مہینے وہ بھی گوشت کھاتے ہیں جن کے دسترخوان سارا سال نہیں لگتے اس ماہ وہ بھی طرح طرح کے پکوان بناتے ہیں۔

اس ماہ برکتوں کا نزول ہر جگہ نظر آرہا ہوتا ہے لوگ کھانے پکوا کر بانٹ رہے ہوتے ہیں،غرضیکہ اس تہوار کی برکت سے کوئی مسلمان بھوکا نہیں رہتا۔عیدالاضحیٰ خدمت انسانی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، جہاں مخیر حضرات ایسی بستیوں میں جاکر بھی گوشت و کھانا تقسیم کرتے ہیں جنہوں نےکبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ہوتا، حتیٰ کہ جانور کی کھالیں بھی انکی امداد کے لئے فلاحی ادارے استعمال کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ایک منظم و مربوط قربانی کا نظام دے کر پوری انسانیت کی بھلائی و ہمدردی کا احساس پیدا کر دیا، بے شک قربانی کا عمل نہ صرف اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے بلکہ انسانوں کا آپس میں احساس و ہمدردی اخوت کے جذبے کی آبیاری ہے، لیکن بشرطیکہ اس میں جذبہ، خالصتاً اللہ کی خوشنودی کا حصول ہو۔