محفوظ عورت۔۔مگر کیسے؟

لق ودق صحرا میں ایک خاتون اور ایک بچہ۔۔اور وہ ظالم شوہر ہر گز نہ تھا جو ان دو ذی روحوں کو یوں تنہا اور بے بس چھوڑ گیا تھا، بلکہ وہ پیغمبر خدا تھا اور اطاعت خداوندی میں ہی اس مشکل ترین مہم کو سر کرنے آیا تھا، خاتون کو معلوم تھا، یہ امر ربی ہے، سو وہ بھی اس امتحان سے گزرنے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔۔۔ خاندان کی بقاء یقیناً باہمی مشاورت، اطاعت، ایثار، قربانی میں پوشیدہ ہے، اور ان صفات سے متصف خاندان ہی بے شک وشبہ ایک مستحکم معاشرے کے ضامن ہوتے ہیں، محبت، وفا، جانثاری کے عوض عورت کو جو تحفظ و عزت ووقار ملتا ہے، اس کا ثمرہ نسلوں اور خاندانوں کی مضبوطی کی صورت عیاں ہوتا ہے،جو بالآخر معاشرے کے استحکام کا باعث بنتا ہے۔

لہٰذا خاتون کی وفا کیشی و اطاعت اور مرد کے مضبوط عزم وہمت اور ایثار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لق ودق صحرا جہاں زندگی کے امکانات مفقود نظر آتے تھے، پوری دنیا کا مرکز بن گیا، گویا مرد وعورت جب عقد نکاح کے نتیجے میں زوجین بن کر خاندان کی بنیاد رکھ دیتے ہیں تو فطرت کے تقاضوں اور اسلامی معاشرت کے قوانین کے نتیجے میں زوجین اپنے اپنے دائرہ کار میں ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہرتے ہیں، پھر خاتون، ہاجرہ بن کر بظاہر نا مساعد حالات میں بھی اسمٰعیل تیار کر دیتی ہے اور مرد گھر ایسی قانتہ و حافظہ کے سپرد کر کے تعمیر کعبہ جیسے مشن کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے۔

اگر ہم خواتین حقوق چاہتی ہیں، تو آزادی نسواں کے بے کار اور ردی نظریات سے متاثر ہو کر خاندانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی بجائے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما و حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے سبق لینا ہو گا۔۔۔ معزز خواتین ! عزت و حقوق کی طلب گارو! جانتی ہو نا دولتمند خدیجہ کا انتخاب ہمسفر۔۔۔ دنیا نہیں دیکھتیں دین دیکھتی ہیں، اور پھر باوجود عمر میں اس قدر بڑی ہونے کے خاوند کی خدمت و اطاعت میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، حتی کہ اپنا مال بھی اس کے مشن پر نچھاور، اس کو اولاد کی فکر سے بھی بے نیاز رکھا، جب معاشرے نے دھتکارا، مجنوں کہہ دیا، تب بھی جذباتی حوصلہ افزائی کی۔

کیا اتنی مالدار ہونے کے باوجود شوہر کے رتبے میں کوئی کمی آنے دی! کیا حقوق سے وہ طاہرہ رشیدہ خاتون آگاہ نہ تھی!!!جس نے خاوند کو مالی واخلاقی حوصلہ بھی دیا، بچوں کی تربیت میں بھی سر خروئی حاصل کی، لیکن گھر کی زندگی کو کبھی جہنم نہ سمجھا، کبھی خاوند کو ظالم وجابر نہ سمجھا، اس کی بیٹیوں، زینب و رقیہ و ام کلثوم نے بہترین بیوی کے لازوال کردار کی پہچان دی، اس خاتون جنت کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے کبھی گھر کے کاموں، شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و تربیت کو بوجھ نہیں سمجھا بلکہ رہتی دنیا تک کی عورت کو خاتون کی بہترین صفات سے روشناس کروا دیا۔

ہمیں یقینا ان حقوق پر مطمئن ہونا ہو گا جو اسلام نے ہمیں دیے ہیں، اگر ہم ایسا نہیں کرتیں، تو یقیناً ہم بے لگام نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتی ہیں، ہمیں جھوٹی عزت درکار ہے، ہم مادر پدر آزادی کی خواہش مند ہیں۔۔۔ معذرت کے ساتھ، اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں اسلام کے لبادے کو ترک کرنا ہو گا، ہمیں مسلمان رہتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار کے حقوق وفرائض کو لے کر چلنے کی ہی اجازت ہے، آئیے اپنے گھروں بہترین بیوی، ماں، بہن، بیٹی بن کر مضبوط بنائیں،اور بہترین بیٹے اور بھائیوں کی تربیت کے مورچے پر مضبوطی سے ڈٹ جائیں، اپنی بیٹیوں کو نرم دل و باحیا شوہر اور بیٹوں کو وفا شعار و اطاعت گزار بیویوں کی فراہمی یقینی بنائیں، اللہ ہمیں محفوظ عورت کی پہچان دے اور مضبوط خاندان اور مستحکم معاشرے کے مشن کو فرض اولین سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔