بجلی گھروں کا فراڈ اور بڑھتی مہنگائی

پاکستانیوں کی کمر توڑنے کیلئے ہر حکومت نے بجلی گھروں سے دوستی کی ہے اور بجلی گھر حکومتوں اور عوام پر یہ کہہ کر احسان جتاتے آئے ہیں کہ ہم آپ کو قرض دے رہے ہیں۔ کچھ یہی عالم ہمیشہ سے ہمارے ہمسایہ ملکو ں کا  بھی رہا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی مدد اور پاکستانی قوم  کو ادھار پر تیل فراہم کرتے ہیں جبکہ حیرت انگیز طور پر پاکستانیوں کو بجلی اور تیل دونوں ہی مہنگے فراہم کیے جاتے ہیں۔ آج تک ہمارے دوستوں نے نہ کبھی بجلی سستی دی اور نہ تیل ،مگر پاکستان اور اس کے عوام کو  آج تک احسانات کے منوں وزنی بوجھ تلے دبایا جارہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہماری حکومتیں بھی دوسری جگہوں سےٹیکس وصول نہیں کرپاتیں تو زبردستی بجلی کے بلزکا سہارا لے کر عوام سے بے تحاشہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی ہمیشہ حکومتوں سے یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائیں اور عوام پر مزید ٹیکسز بھی عائد کرتے رہیں۔ آج تقریباً ہر پاکستانی کی کمائی کا 40 فیصد حصہ ان بجلی گھروں کو چلاجاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کو مسلسل تنگدستی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صنعتکار بھی کبھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک بجلی کی قیمتیں بڑھتی رہیں جبکہ  ہم گزشتہ حکومت کا رونا رو رہے تھے کہ حکومت نے عوام کے ساتھ مذاق کیا یا بے وقوف بنایا؟ کیونکہ مختلف بجلی کی قیمتوں کے سلیب کچھ اس طرح سے بنائے گئے کہ تقریباً ہر پاکستانی اس کی گرفت میں آجاتا ہے۔

دوسری جانب عوام کو اور اخباری نمائندوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے بجلی کی قیمت غریبوں کیلئے بہت کم رکھی ہے اور زیادہ تر بجلی کے نرخ  ان لوگوں کیلئے بڑھائے گئے جو 200 یونٹ سے اوپر استعمال کرتے ہیں۔کوئی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ پاکستان کے 75 فیصد شہری بجلی کے 200 یونٹ استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کا استعمال اس حد سے اوپر ہی رہتا ہے۔ بجلی کے زیادہ استعمال کی وجہ ہر گھر میں نصب پانی کی موٹریں ہوتی ہیں ، جن کے بغیر پانی کی گھروں میں دستیابی ممکن نہیں۔ ہر گھر کی ٹنکیاں چھت پر ہوتی ہیں اورٹنکیوں تک پانی پہنچانے کیلئے موٹر استعمال کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر شدید موسم کاحامل ملک ہے جہاں گرمی اور سردی دونوں ہی شدید ہوتے ہیں۔

شدید گرمی  کو ختم کرنے کیلئے غریب سے غریب عوام کو بھی پنکھے کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ پنکھے کے استعمال کےعلاوہ بھی ہر گھر میں جب کپڑے دھلتے ہیں، ان کی استری کیلئے بھی بجلی استعمال کی جاتی ہے جو ہر گھر کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے جبکہ  یہاں ہم ائیر کولر، اے سی یا واشنگ مشین کی بات نہیں کر رہے۔ ہم بجلی کی ان اشیاء کا ذکر کر رہے ہیں جو ہر غریب آدمی استعمال کرتا ہے۔ پانی کی موٹر اور استری سے بجلی کے بے تحاشہ یونٹ خرچ ہوتے ہیں جس کا کوئی اور متبادل نظام دستیاب نہیں جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

اگر ایک گھر میں صرف پانی کی موٹر، استری، پنکھے ، لائٹس استعمال ہوتی ہیں، تب بھی بجلی کا استعمال 200 یونٹس سے زائد رہتا ہے ۔ زیادہ تر استری کا استعمال بچوں کے عام استعمال کے کپڑوں، اسکول یونیفارمز، گھر کے سربراہ کے آفس جانے کے کپڑوں اور  خواتین کے کپڑوں پر کیا جاتا ہے جو روزانہ استری ہوتے ہیں۔ باقی ماندہ کم بجلی کرنے والے افراد جو 200 یونٹس بھی استعمال کرتے ہیں تو انہیں بھی بجلی کے کم بلز نہیں بھیجے جاتے  بلکہ ایسے صارفین پر ٹیرف شام6 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک دگنا چارج کیاجاتا ہے۔ اب یہ بتائیے کہ کیا شام 6 بجے سے 10 بجے تک جب غریب آدمی تھک ہار کر کام سے واپس آئے تو کیا وہ اپنے گھر کو روشن کرنے کیلئے لائٹس بھی استعمال نہیں کرے گا؟

کیا غریب  آدمی دن بھر کی تھکن اتارنے کیلئے پنکھے کا استعمال بھی ترک کردے؟حکومت کا رونا تو یہ ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کیا جارہا ہے مگر بجلی کی گاڑیاں درآمد  کرنے کی اجازت بغیر کسی ڈیوٹی کے دی جارہی ہے۔ کچھ ایسے ہی عقلمندی کے کام گزشتہ عمران خان حکومت نے بھی کیے تھے۔ موجودہ حکومت بھی کچھ ایسے ہی اقدامات اٹھاتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر جب صنعتو ں کیلئے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور تمام اشیاء مہنگی قیمت پر ہی دستیاب ہوں گی۔ پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زندگی گزارنے کی لاگت (کاسٹ آف لیونگ) اور پیداواری لاگت بڑھتی چلی جارہی ہے اور عوام حکومتوں سے فریادکرنے پر مجبور ہیں  کہ بجلی کی قیمتیں خدارا کم کریں۔ بجلی گھر ہمیشہ سے سیاسی لوگوں کے اثر رسوخ کی وجہ سے مسلسل اپنی  کمائی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جس کا نقصان عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔

مگر حکومت اور عوام پر یہ احسان جتایا جاتا ہے کہ ہم قرض پر آپ کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ قرض کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنی چیز بے تحاشہ مہنگی کرکے فروخت کریں اور دوسری جانب بجلی گھر والے یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کو حکومت سے پیسے مل جائیں گے۔ یہ پیسہ بینکس میں رکھی ہوئی رقم کی طرح ہوتا  ہے جس کے سود میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے نام نہاد قرض دینے والوں کو تفریح کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ عام آدمی کی مشکلات میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ آج پاکستانی قوم امید کررہی ہے کہ شاید کوئی مسیحا آئے اور ان بجلی گھروں کے  فراڈ اور ظلم و ستم سے پاکستانیوں کو بچا لے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ قیادت وفاقی حکومت عوام کی بنیادی ضروریات کی مناسب نرخوں میں عوام کو دستیابی یقینی بنانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔