آپ جناب سے ابے اور اوئے تک کا سفر

برصغیر پاک و ہند میں شائستہ گفتگو تہذیب کا حصہ ہے۔ یہاں کسی کو پکارنے اور مخاطب کرنے کے اپنے آداب ہیں۔ آپ، جناب، قبلہ، محترم اور حضور جیسے لاحقات کا استعمال کرکے آپ سامنے والے کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں۔ کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنے سے تو ہمارے مذہب میں بھی منع کیا گیا ہے لیکن جہاں معاشرےمیں بہت سی چیزیں تبدیل ہوگئی ہیں وہیں ہمارے لہجوں میں شائستگی کی جگہ تلخی نے لے لی اور اب یہ تلخی باقاعدہ بدتمیزی اور بدتہذیبی کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔عوامی اجتماعات میں مخالفین کو اوئے، ابےکہہ کر مخاطب کرنا ہمارا کلچر بنتا جارہا ہے جس پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارا ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں بھرپور سیاسی اختلافات کے باوجود مخالفین شخصی طور پر ایک دوسرے کو قابل احترام سمجھتے تھے اورمختلف سیاسی نظریات ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی خوشی وغمی میں شریک ہونا فرض سمجھا جاتا تھا۔ مخالفت کا انداز بھی انتہائی شائستہ ہوتا اور کوششش کی جاتی کہ اس طرح کی بات کی جائے جس سے مخالفین کو سیاسی چوٹ تو پہنچے تو لیکن ذاتیات اس سے دور رہیں۔

سیاست توایک جانب رہی قلمکار بھی ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے تھے، لاہور کا ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ حبیب جالب صاحب کے ساتھ کسی پولیس والے نے بدتمیزی کی اور انہیں تھانے لے گیا۔ اس واقعہ کی اطلاع جب آغا شورش کاشمیری کو ملی تو وہ تھانے جا پہنچے اور حبیب جالب سے بدتمیزی کرنے پر وہاں دھرنا دے دیا۔بات اتنی بڑھی کہ وزیر اعظم تک جاپہنچی اور پھر ان کے معذرت کرنے پر شورش کاشمیری نے اپنا دھرنا ختم کیا۔اگر نظریات کی بات کی جائے تو جالب صاحب اور آغا شورش کاشمیری کے درمیان ایک واضح خلیج تھی لیکن شخصی طور پر دونوں ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔

ہم اپنی سیاست میں شائستگی کی مثال کے طور پر نوابزادہ نصراللہ خان کو پیش کرسکتے ہیں مظفر گڑھ کا یہ نواب اپنی زمینیں فروخت کرکے سیاست کرتا رہا لیکن کبھی اس کا دامن کرپشن سے داغدار نہیں ہوا۔ نواب صاحب اپنے بدتر مخالف کو بھی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے۔ ہم نے قاضی حسین احمد صاحب کہ زبان سے کسی کےلیئے تم تک نہیں سنا۔ مولانا نورانی گفتگو کرتے تو ایسا محسوس ہوتا شائستگی کو زبان مل گئی ہے۔ پروفیسر غفور شرافت کےپیکرتھے۔ ملک معراج خالد ہوں،غلام مصطفی جتوئی یا چوہدری ظہور الٰہی سب میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ انہوں نےکبھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے سےنہیں چھوڑا۔ ہماری سیاست میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ آوے کا آوے ہی بگڑگیا ہے۔ سیاسی اجتماعات میں مخالفین کو بس ماں بہن کی گالیاں ہی نہیں دی جارہی ہیں باقی تو سب کچھ ہورہا ہے۔”گھسیٹ لوں گا، ٹانگ دوں گا، ابے، اوئے” اور نجانے کون کون سے بازاری الفاظ کا استعمال عام ہوگیا ہے۔

رہنمائی کے دعویداروں کا اس طرح کی زبان استعمال کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ قوم سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہماری لغت میں اچھے الفاظ ناپید ہوگئے ہیں؟ نیشنل ٹی وی پر اس طرح کے خطابات سے نوجوان نسل کیا سوچے گی اور وہ اپنے ان رہنماٶں سے کیا سبق حاصل کرے گی؟ ہمیں اس بات کوئی غرض نہیں ہے کہ کون امپورٹڈ ہے اور کون سلیکٹڈ تھا۔کس کےخلاف سازش ہوئی ہے اور کس نے سازش کی ہے۔آج کون برسراقتدار ہے اور کل کس کی حکمرانی ہوگی ہمیں اس وقت صرف فکر اپنی تہذیب کی ہے جو ہمارے رہنماٶں کی وجہ سے سڑکوں اور چوراہوں پر روندی جارہی ہے۔