نئے عالمی بحرانوں کے منڈلاتے بادل

ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ یوکرین تنازعہ دنیا بھر میں سماجی اور اقتصادی افراتفری کو جنم دے سکتا ہے۔اس تنازعہ کو شروع ہوئے تین ماہ ہو چکے ہیں اور خوراک، توانائی اور مالیات پر کرائسز ریسپانس گروپ کی رپورٹ کے مطابق اس سے کئی نئے مسائل نے جنم لیا ہے اور دنیا کو نئی خونریزی اور مصائب کا سامنا ہے۔یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ یوکرین تنازعہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مزید تنازعات اور دوسرے بحرانوں کے ساتھ ساتھ بھوک اور بدحالی کی ایک غیر معمولی لہر، سماجی اور معاشی ابتری کا باعث بن رہا ہے جس سے پورے ورلڈ آرڈر کو خطرہ ہے۔

کرائسز ریسپانس گروپ کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ تحفظ خوراک، توانائی اور مالیات، یہ وہ اہم شعبہ جات ہیں جو اس تنازعہ سے سنگین طور پر متاثر ہو رہے ہیں اور جنگ کے اثرات شدید اور تیز تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دنیا کو پہلے سے درپیش بہت سے دیگر بحرانوں کے منفی اثرات کو بھی مزید بڑھا رہا ہے جن میں سرفہرست موسمیاتی تبدیلی، کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال اور شدید عالمی عدم مساوات وغیرہ شامل ہیں۔ اس ساری صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے کمزور طبقے اور کمزور ممالک شدید متاثر ہو رہے ہیں اور دوسرا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ کوئی بھی ملک یا کمیونٹی تنازعہ کے باعث سامنے آنے والی مہنگائی کے بحران سے نہیں بچ پا رہی ہے۔

اشیائے خوردونوش کی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں، کھاد کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ کھاد کے بغیر، مکئی اور گندم سے لے کر چاول سمیت تمام اہم فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور اناج کی قلت کا ایک ایسا خطرہ منڈلا رہاہے جس کا ایشیا سمیت دیگر خطوں کے اربوں لوگوں پر تباہ کن اثر پڑے گا۔رواں سال اگر خوراک کی سپلائی کا مسئلہ درپیش رہا تو آئندہ برس دنیا کو خوراک کی شدید قلت کے بارے میں تیار رہنا پڑے گا۔

اسی طرح دنیا کے کئی دیگر خطوں میں توانائی کی ریکارڈ بلند قیمتیں بلیک آؤٹ اور ایندھن کی قلت کو جنم دے رہی ہیں۔ اکثر ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے ڈیفالٹ اور معاشی ابتری کے حوالے سے مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں، پانچ میں سے تین کارکن وبائی صورتحال سے پہلے کے مقابلے میں بہت کم کما رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ مختلف ممالک کے پاس اپنے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے خاطر خواہ وسائل ہی دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی بجٹ میں توازن کی کوئی امید ہے۔ مختلف ممالک میں عوام بالخصوص غریب افراد کو مجبوراً زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے اپنے کاروبار کی بندش، مال مویشیوں کی فروخت، یا اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھانے جیسے ناممکن فیصلوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر خطوں میں خواتین اور بچے یہ وہ طبقہ ہے جو خوراک کی قلت کا اکثر شکار رہتا ہے،ایسے میں تحفظ خوراک کا بحران صورتحال کی سنگینی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک با اثر ملک کے طور پر چین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف جنگ بندی اور امن کی بحالی ہی کمزور طبقات کو تنازعات کے المیے سے بچا سکتی ہے۔یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی اور روس پر پابندیوں اور دباؤ کا اطلاق تنازعہ کو طول اور وسعت دے گا۔ یوکرین تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے اور اب تک 6.8 ملین یوکرینی شہری سرحد عبور کر کے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کے لیے آ چکے ہیں اور ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ چین کا مطالبہ رہا ہے کہ تنازعہ کے فریقوں کو بین الاقوامی قانون کی پابندی کرنی چاہیے اور شہریوں کو ہر قسم کے تشدد سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔چین کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ عالمی سلامتی ناگزیر ہے، کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کی سلامتی کی قیمت پر اپنی مکمل سلامتی حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ تمام فریق بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو اولین ترجیح دیں اور یوکرین بحران کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے لیے تعمیری کردار ادا کریں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نئے عالمی بحرانوں سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یوکرین تنازعہ کا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جلد ازجلد سیاسی حل سامنے لایا جائے۔جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اُس وقت تک دو محاذوں پر فوری ردعمل کی ضرورت ہے یعنیٰ خوراک اور توانائی کی عالمی منڈیوں میں استحکام لایا جائے اور غریب ترین ممالک اور کمزور طبقوں کی مدد کے لیے فوری طور پر وسائل دستیاب کیے جائیں۔ فوڈ سیکیورٹی کی خاطر یوکرین کی خوراک کی پیداوار، اور روس کی تیار کردہ خوراک اور کھاد کو عالمی منڈیوں میں فوری واپس لایا جائے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ آئندہ مہینوں اور سالوں میں انسانی زندگیوں کے تحفظ اور معاش کو بچانے کے لیے تمام ممالک کو ابھی سے کام کرنا چاہیے۔اس ضمن میں انسانیت کے بہترین مفاد میں یکطرفہ پسندی،بالادستی اور تحفظ پسندی جیسے رویوں سے گریز کرنا چاہیے اور اجتماعی سوچ سے آگے کا سوچنا لازم ہے۔