تہاڑ میں دھاڑ

کہتے ہیں کہ جنگل میں مورناچاکس نے دیکھا لیکن اسی جنگل میں اگر شیر دھاڑے تو اس کی دھاڑ سے جنگل کے سبھی پرند،چرند،گزند اپنی اپنی راہ لینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔صیاد کی چالاکی اگر شیر کو دام میں پھنسانے میں کامیاب ہو بھی جائے پھر بھی دل میں خیال رہتاہے کہ اگر شیر پھندہ توڑنے میں کامیاب ہوگیا تو میرا کیا بنے گا۔اسی لئے شیر واحد جانور ہے جس کا شکار شکاری مل کر کرتے ہیں۔کیونکہ اکیلے شیر کا سامنا کرنا دل گردہ کا کام ہے۔کشمیر کے خوبصورت گھنے جنگلات کی ایک خوبصورت وادی کا شیرجس کا نام یاسین ملک جسے تہاڑ جیل میں پابند سلاسل کر کے بھی ہندوستانی حکومت وریاست ایسے ہی خوفزدہ تھے جیسے کہ کسی شیرکو قید کر لیا ہے اور ڈر یہ کہ اگر یہ شیر درودیوار گرا کے باہر چلا آیا تو ہمارا کیا بنے گا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ کمزور نحیف جسم کا مالک یہ شخص شیر کیسے بنا؟۔

1980کی بات ہے جب اس حریت پسندنے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا یعنی کوئی چودہ برس کا ہوا ہوگا کہ جب اس نے دیکھا کہ ایک سڑک پر سرکاری جیپ جس میں چند فوجی سوار تھے اور ڈرائیور مکمل نشے میں تھا ،ڈرائیور کی غفلت نے ایک شہری کو ٹکر مار کر لہو لہان کردیا۔جوابی کارروائی میں چند کشمیری شہری اکٹھے ہوئے اور اس ڈرائیور کو دھو ڈالا۔ظاہر ہے وردی کا رعب اور کار سرکار میں مداخلت کی آڑ میں چند لمحے بعد ہی فوجیوں کا ایک ٹرک اسی جگہ شہریوں کی جان مال کو روندتا دکھائی دیا۔سولہ سالہ یاسین ملک نے اپنی جان بچانے کی غرض سے ایک دکان میں پناہ لی اور نہتے کشمیریوں پر ظلم وستم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس سوچ کو پختہ کر لیا کہ جان بچ گئی تو پھر اس جان کو اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لئے وقف کر دوں گا۔کیونکہ یہ عقیدہ اسی وقت اس کے دماغ میں راسخ ہو گیا تھا کہ زندگی جانوروں کی طرح جینے کا نام نہیں اورنہ ہی غلامی کی زنجیروں میں خود کو جکڑ کرجیا جا سکتا ہے۔یہ بات اس نے اپنے عمل سے ثابت بھی کی کہ جب جج صاحب نے اسے سزا سنانے سے قبل پوچھا کہ تم اپنے موقف بیان کرنا چاہتے ہوں تو انہوں نے سینہ تانتے ہوئے کہا کہ میں بھیک نہیں مانگوں گا،آپ کو جو سزا دینی ہے دے دیجئے لیکن میرے کچھ سوالات کا جواب ضرور دیجئے گا،اگر میں دہشت گرد تھا تو ہندوستان کے سات وزرائے اعظم مجھ سے کیوں ملے،اگر میں دہشت گرد تھا تو میرے خلاف کوئی چارج شیٹ کیوں نہیں کی گئی،اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے واجپائی نے پاسپورٹ کیوں جاری کیا،اگر میں واقعی دہشت گرد تھا تو مجھے دنیا کے مختلف ممالک میں لیکچرز دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟ان تمام سوالات کا جواب نہ انڈین عدالت،عالمی عدالت انصاف،اقوام متحدہ سمیت دنیا کی کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پاس نہیں ہے۔وہی ہواجو فاشسٹ ممالک کی عدالتوں میں ہوا کرتا ہے۔جواب یہ ملا کہ ان باتوں کو چھوڑو یہ بتاﺅ کہ اپنی سزا کے بارے میں کوئی تجویز دینا چاہتے ہو ،تو اس سوال کے جواب میں حریت فکر کے حریت پسند راہنما نے کہا کہ میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا۔

1990 میں جبکہ بی ایس ایف ریڈ کے دوران ان کے پاس ماسوا اپنی جان بچانے کے کوئی چارہ نہیں تھا تو انہوں نے ایک بلڈنگ کی پانچویں منزل سے چھلانگ لگا دی مگر پندرہ فٹ کی درمیانی گلی پار نہ کرنے کی وجہ سے وہ سیدھا سڑک میں جا گرا۔حالت ایسی ہو گئی کہ سب نے اناللہ وانا علیہ راجعون پڑھ لیا۔مگر ہوتا وہی ہے جو قدرت کاملہ کو منظور ہوتا ہے۔اللہ نے انہیں نئی زندگی عطا کی شائد قدرت ان سے کوئی اور بڑا کام لینا چاہتی تھی۔بس تب سے اب تک کوئی ایسا سال نہیں کہ جس میں یاسین ملک کو جیل کی چاردیواری میں پابند سلاسل نہ کیاگیا ہو۔لیکن کسی جیل کی دیوار ان کے عزم کی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکی،بلکہ جیل کی دیوار جتنی اونچی ہوتی یاسین ملک کا حوصلہ،ہمت اور عزم اتنا ہی بلند ہوجاتا۔

لیکن اب کی بار تہاڑ جیل میں اس شیرِ کشمیر اور مرد قلندر نے ایسی دھاڑ سے دشمن کو للکارا کہ انہیں سزائے موت کے سواکوئی چارہ دکھائی نہ دیا۔لیکن کم ظرف دشمن کیا جانے کہ حریت پسندوں کے لئے جیل ،غلامی سے کہیں بہتر لگتی ہے۔میدان ِ حریت کے مجاہدوں کوجیل کے چھوٹے دروازے اس لئے ناپسند ہوتے ہیں کہ وہاں سے انہیں جھک کر گزرنا پڑتا ہے۔پھر تہاڑ جیل کے سرکاری کارندوں نے کیسے اندازہ لگا لیا کہ چاردیواری سے یاسین ملک جیسا شیر گھبرا جائے گا۔دیواروں اور پہروں کا گھیرا جتنا تنگ ہوتا جائے گا مرد مجاہدوں کے حوصلے اتنے ہی بلند ہوتے جائیں گے۔وہ جسے کئی بار موت کے گھنے جنگل کا جواں چیتا نہ ہرا سکا،تہاڑ جیل کی سلاخیں کیسے شکست دے سکتی ہیں۔وہ مرد مجاہد اور پرشکوہ کوہ گراں عدالت کے سامنے بھی ایسے ہی ڈٹ گیا جیسے کہ کئی بار موت کے سامنے۔

غلاموں کو دیا کرتا ہوں میں درس حریت،

بغاوت میرا پیشہ ہے،باغی مجھے کہتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔