عمل و ردعمل کی دنیا‎‎

جذبات احساسات دنیا کی ہر شے محسوس کرتے اور اس کے نتائج بھی دکھاتے ہیں۔ نرمی کا جواب نرمی اور ترشی کا جواب ترشی سے ہی ملتا ہے۔ چند ہی بااخلاق ہوتے ہیں جو ترشی کا جواب بھی نرمی سے دیں ورنہ دنیا میں ہر عمل کا ردعمل لازمی ہوتا ہے ۔ جیسے کائنات میں موجود ہر جاندارکو اللہ تعالی نے ردعمل ودیعت کر دیا ہے جو اپنی فطرت کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔

چھوئی موئی، میموسا پوڈیکا اور touch me not ایسا پودا ہے جس کو ہاتھ لگانےسے اسکے پتے اندر کی طرف جاتے ہیں۔ جیسے ہمارا ہاتھ لگانے سے پتہ نہیں ۔ نرمی سے ہاتھ لگانے سے نرمی سے موڑتے ہیں اور سختی سے ہاتھ لگانے سے سختی سے موڑتے ہیں گویا کہ یہ انسان کی نیت کو سمجھ کر اپنا ردعمل اختیار کرتا ہے ۔اس طرح گرگٹ بھی خطرہ محسوس کر کے اپنی رنگت ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتا ہے ۔ایک چیونٹی بھی بارش کی آمد کو محسوس کر کے بل میں اپنا کھانا جمع کر لیتی ہے اور کچھوا خطرہ محسوس کر کے اپنا سر اور پاؤں خول میں چھپا لیتا ہے یہ تو جانور کا رد عمل ہوتا ہے جو کہ فطرت نے اس کو ودیعت کر دیا ہے۔

انسان بھی اپنا اخلاق دوسرے انسان کو دیکھ کر بنا لیتا ہے جیسا وہ اس سے پیش آتا ہے ویسے ہی وہ اپنا اخلاق بنا لیتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔اس کی محسوسات عمل اور ردعمل اللہ تعالی کی امانت ہے جوکہ ریکارڈ کی جارہی ہے اور اسکی جوابدہی کرنی ہوگی۔

اللہ تعالی نے مومن مردوں اور عورتوں کے جان و مال و آبرو جنت کے عوض خرید لیے ہیں ۔ یعنی ہمارے محسوسات ردعمل جذبات صرف اللہ کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے،اسلئے اللہ تعالی نے انسان کی اصلاح کے لئے پے درپے انبیاء ورسل بھیجے جو اسکے عمل کو سنوارنے کے لئے واضح ہدایات بھیجی کیونکہ اس کائنات میں انسان جو بھی عمل کرے گا اسکا ردعمل کے طور پرجنت وجہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسلئے عمل وردعمل احساسات وجذبات۔ سوچ وفکر سے پنپتے ہیں۔ اپنے وسیع مفاد کو صرف روحانی تزکیہ کے لئے قربان کر دینا ہی انسانیت کی معراج ہے جوکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سکھاتی ہے آپ ُﷺ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر ہیں انہوں نے ہی سکھایا کہ کس بات کا کیسے جذبات، احساسات، سوچ، عمل اور ردعمل اختیار کرنا ہے تب ہی ہمیں اسکے مطابق عمل پر ردعمل پر خالق کائنات نے جنت کا وعدہ کیا ہے حدیث نبوی ہے کہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میرے رب میں خاص طور پر نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ کھلے چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ غصے و ناراضگی میں دونوں ہاتھوں میں انصاف کی بات کرنا۔ غربت و خوشحالی دونوں ہاتھوں میں میانہ روی اختیار کرنا۔ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔ جو مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دو۔ میری خاموشی فکر کی خاموشی ہے۔ میری گفتگو ذکر الٰہی کی گفتگو ہے۔ میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہے اور آخر میں فرمایا کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔الحدیث

انسان انسانیت کی کمال معراج تک تبھی پہنچ سکتا ہے جب تک وہ آپﷺ کی ان تعلیمات پر عمل کرے آج انسانیت اسی اخلاقی پیمانے کی متلاشی ہے معاشرے کے امن و سکون عمل وردعمل کو صیحیح کسوٹی پر پرکھنے کے لئے قرآن وسنت پر عمل ہی بہترین حل ہے جس کے نتائج دنیاوی و اخروی فلاح کا ضامن ہے۔