مؤرخ لکھے گا

چرخ کبود جب کسی سانحہ و حوادث پر اشک شوئی کرنا چاہتا ہے توبارش کی صورت میں اس قدر کھل کر برستا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ آسمان سر پر ٹوٹنے والا ہو جیسے۔لیکن تاریخ عالم شاہد ہے کہ جب کبھی بھی کہیں بھی ظلم وبربریت کا بازار کائنات ارضی پہ گرم ہوا تو اسے غیر جانبدار مورخین نے ہی صفحہ قرطاس پر محفوظ کیا۔وہ بھی اس لئے کہ نسل آئندہ اس صفحات سے سبق سیکھ سکے۔وگرنہ تو سطوت شاہی میں چرب زبان افراد کا بادشاہوں کی سوچوں پر تسلط رہا ہے۔بلکہ انہیں اپنے قلم سے آگے دیکھنے ہی دیا کرتے تھے۔الیگزینڈر سے مغل دور حکومت تک ایسے افراد کی لمبی فہرست تحقیق کرنے سے مل جاتی ہے۔لیکن یاد رکھئے گا کہ تاریخ انہیں اقوام و راہنمائوں کو اپنے دامن میں پناہ گزیں کرتی ہے جنہوں نے اخلاص وطن اور حب مذہب کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دئے ہوں۔دوسری طرف شاہوں کے وفادار بے ضمیر تاریخ دان اپنے آقائوں کی طرح بے رحم ہوتے ہیں۔ویسے میرے مشاہدہ میں ہر وہ فرد بے رحم ہوتا ہے جسے اپنا مفاد ہر چیز سے عزیز ہو۔

لیکن یاد رکھئے گا غیر جانبدار تاریخ بھی انہیں ہی اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے سنہری الفاظ میں تسوید کرتی ہے جنہوں نے وقت کے دھارے کو بدلتے ہوئے ذاتی مفادات کو ملکی وقار وسلامتی پر قربان کردیا ہو۔وگرنہ غدار وطن،ننگ مذاہب اور نام نہاد باغیوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے۔مورخ کا لکھا ہواتو سب کے لئے ہی ہوتا ہے لیکن ہر فرد کے دیکھنے اور سوچنے کا انداز مختلف اس لئے ہوتا ہے کہ مورخ کی طرح قاری کو بھی غیر جانبدار ہونا پڑتا ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اس کا تعصب اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ اس نے کسی اور کی عینک اپنی آنکھوں پہ لگا رکھی ہے۔اس کی مثال بالکل درخت کے ساتھ وابستہ پتے کی سی ہے۔کہ ایک پتا جب موسم خزاں میں بھی شجر سے وابستہ رہتا ہے تو اس کے بارے میں کئی طرح کے سوالات و خدشات پیدا ہو جاتے ہیں جیسے کہ میکسم گوگی کہتا ہے کہ

وہ پتا جو خزاں میں نہیں گرتا وہ اپنی برادری کی نظر میں غدار،درخت کی نظر میں وفادار اور موسم کی نظر میں باغی ہوتا ہے

یاد رکھئے گا کہ تاریخ ہمیشہ سرفروش ہی لکھا کرتے ہیں۔بزدل و مفادپرست اپنے ضمیر و ملک کا سودا ایک ساتھ ہی کرتے ہیں۔بالکل اس قول کے مصداق جو کہ چہ گویرا نے کہا تھا کہ ’’اپنے ضمیر کا سودا نہ کرنا کیونکہ ضمیر کا سودا پوری قوم کا سودا ہوتا ہے‘‘

لیکن یہ سب تو ان کے لئے ہے جن کے ضمیر زندہ ہیں،ابھی تک مردہ نہیں ہوئے۔رہبروں کے ضمیر ہی ہمیشہ سے مجرم ہوتے ہیں،عام عوام کو ان سے کوئی لینا دینا اس لئے نہیں ہوتا کہ انہیں روٹی کپڑا اور مکان کی غلامی میں دے کر ہمارے راہنما سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں ان پر اتدار کرنے اور ان کے اذہان سے کھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستانی عوام کے ساتھ بھی گذشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ میں یہی سلسلہ چلتا آرہا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا۔کیونکہ ہم تو بقوم غالب گورے کی قید سے نکل کر کالے کی غلامی میں چلے جاتے ہیں۔ہم عوام تو ازل سے گویا غلام ابن غلام ہی ہیں۔کبھی ان راہنمائوں کے اور کبھی اپنی معاشی حالت کے۔گورے جب برصغیر پر حکومت کرتے تھے تو انہوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولہ اپنایا لیکن ان کے جانے کے بعد جو فارمولہ ہمارے حکمرانوں نے اپنایا ان سے بہتر تو گورے ہی تھے۔کہ جن کی حکومت میں کم از کم انصاف تو ملتا تھا۔شائد یہی ایک عمل ایسا ہے کہ جو یورپ کو ہم سے ممتاز کر رہا ہے۔ہمارے نظام انصاف کی مثال تو ہم سب کے سامنے ہےکہ عدالت جب چاہے جس کے لئے چاہے جس وقت چاہے تو اپنی بساط بچھائے اور فیصلہ سنا دے۔ہمارے راہنمابھی کسی طور کم نہیں وہ بھی جب چاہیں جیسا چاہیں اپنی مرضی کے مطابق قانون و آئین منظور کروالیں۔

لیکن افسوس اس لئے ہوتا ہے کہ یہ سب عوام اور ملک کا نام لے کر کیا جاتا ہے لیکن عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔جیسے کہ حالیہ سیاسی بحران میں عوام،قانون اور آئین کی پاسداری کے لئے سب کچھ کیا گیا یونہی اقتدار کا انتقال ہو ا،عوام کہیں نظر نہیں آرہی یعنی ان کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہیں شروع کیا جارہا ۔اگر وہی پرانے راگ ہی الاپنے تھے تو سابقہ حکومت میں کیا عیب تھے۔جمہوریت کو چلنے دیتے،پانچ سال پورے کرنے دیتے اور پھر الیکشن میں نکال باہر کرتے۔جس کے چانسز بھی تھے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت جس نہج پر چل رہی تھی عوام نے خود ہی انہیں مسترد کردینا تھا۔لیکن متحدہ اپوزشن نے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی،ویسے تو یہ متحدہ حکومت بھی متنجن کی طرح ہے کہ جس کا سواد تو آتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا۔دیکھئے یہ غیر فطری اتحاد کب تک چلتا ہے؟یہ تو خیر ایک الگ سوال ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظامِ حکومت کیا چھوڑ کے جاتے ہیں کہ مؤرخ ان کے بارے میں غیر جانبدار ہو کر کیا لکھے گا۔یقینا وہی لکھے گا جو شاہ لکھنے کو کہے گا۔لیکن لیکن یہ بھی یاد رکھئے گا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے،اب بائیس کروڑ عوام بھی مؤرخ ہیں۔انہیں اب کوئی لولی پاپ نہیں دیا جا سکتا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔