بس زرا سا صرف پاکستانی ہوکر سوچنا!

سفر کرنا آپ کے بس میں ہے، سفر آپ کی پسند کا بھی ہوسکتا ہے لیکن آپ پہنچتے وہاں نہیں جہاں کے لئے آپ نے سفر شروع کیا ہوتا ہے آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں قدرت آپ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ گھومتے پھرتے رہتے ہیں جن کے سفر کا آغاز کچھ اور تھا اور وقت اور حالات نے ان کا راستہ تبدیل کردیا۔ جیسے کہ آپ بننا کچھ چاہتے ہیں اور عملی زندگی میں پہنچ کر کچھ اور بن چکے ہوتے ہیں۔ گنتی کے افراد ایسے اہل ہوتے ہیں جو وقت اور قدرت کے سامنے ایسے سر خم تسلیم کرتے ہیں کے انکی رضا کی بدولت انہیں آگاہی دے دی جاتی ہے اور ہر بدلتے ہوئے لمحے سے آشنا ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کے وہ اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ منزلوں پر پہنچ جانے سے مراد قدرت انہیں کسی ایسی مسند پر براجمان کرا دیتی ہے جہاں سے وہ فیض و آگاہی و شعور بلکہ قدرت کے آلہ کار بنادیئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ وہ مسند کسی آستانے یا ہجرے میں ہی ہوگی یہ کسی بھی ادارے میں موجود ہوسکتی ہے یہ اقتدار میں بھی ہوسکتی ہے۔

معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، حکیم الامت نے فرمایا فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۔ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے وقت اور حالات نے افراد کو مختلف سوچنے کے زاویئے مہیا کئے، جہاں کسی ایک سوچ یا نظریئے پر ایک سے زیادہ افراد اکھٹا ہوگئے وہاں ایک مخصوص نظرئیے کا گروہ تشکیل پاگیا۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ دور حاضر نشر واشاعت کا دور ہے اور ناشر اس بات کی فکر بعد میں کرتا ہے کہ اس تشہیر سے کیا منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بس جلد از جلد نشر کردیتا ہے ۔ دنیا معلومات کے ایک نا ختم ہونے والے طوفان میں غوطہ زن ہے اور اس صحیح غلط کی تفریق سے ماورا ہوچکی ہے ،بس آپ کہہ دیجئے پھر دیکھئے ۔ آج کسی سے کچھ چھپانا ناممکن سی بات ہے یہاں تک کے مخصوص لوگوں کی سوچوں کی تشہیر بھی کر دی جاتی ہے اور وقت گزرنے کیساتھ کوئی پوچھتا بھی نہیں کے کیا کہا گیا تھا اور کیوں کہا تھا ۔

پاکستان اللہ رب العزت کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے جس کی مدد سے اللہ تعالی نے اپنے دین کی ترویج کا کام لینا ہے ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں عوامی طرز عمل بھی کسی نافرمان قوم سے جدا نہیں ہے وقت اور حالات کے پیش ِ نظر اپنا نظریہ بدل لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے دین پر آنےوالی آنچ کی بھی فکر نہیں کرتے ۔ یہ اپنی بھوک کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوجاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کہ کیسی کیسی قربانیاں اس ملک کو خود مختار ریاست بنانے کیلئے دی گئیں ۔ یہ اللہ کے بندے مفادات کو سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ، یہ زمینی خداءوں کو خدا کو ماننے والے بھلا اپنے رب کے سامنے کیسے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ کیوں زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس رب تعالی کے بندے ہیں زمین بھی اسی کی ہے اور سارے حقائق بھی اسے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ کس خوف کی غلامی کرنے کے عادی ہوچکے ہیں کے روشنی ہوجانے کے باوجود آنکھیں نہیں کھولتے اور اپنی اپنی سوچ کے زندانوں سے نہیں نکلتے ۔ کیا پاکستان کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا یہ لوگ اسی طرح سے عوام کو زمینی آقاؤں سے مال و دولت لے کر اسکے غضب سے ڈراتے رہینگے ۔ کیا یہ اپنی نسلوں کو غلامی سے چھٹکارا دلانے کیلئے تیارنہیں ہیں ۔

آج جبکہ وقت پاکستان کا ساتھ دینے کیلئے تیار کھڑا ہوا ہے تو پاکستان کے اندرونی لوگ تقسیم تقسیم در ہوئے جارہے ہیں ۔ حزب مخالف صرف اپنی بات منوانے کیلئے کس درجہ گر سکتی ہے اس کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ مان لینا کے پاکستان تحریک انصا ف کے اقتدار کا سفر ختم ہو گیا ہے تو ایسا قطعی نہیں ہے ، خان صاحب ایک کھلاڑی ہیں اور کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو کھیل کے آخری لمحے تک ہار جیت کو واضح نہیں ہونے دیتا ۔ وہ پاکستان اور پاکستانیت کی شناخت کیلئے جہاں تک جا سکتا وہ جائے گیا ۔ ابھی تو دیکھنا ہے کہ اگلی حکمت عملی کیا سامنے آتی ہے ۔ حقیقت میں فیصلہ تو ہم عوام نے کرنا ہے کہ آخر کب تک ہم بطور قوم غلامی کا طوق گلے میں ڈالے رہینگے ۔ یہ جو لوگ اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں یہ قدرت کی طرف سے انکے لئے عوام کے سامنے کھل کر سامنے آنے کا موقع ہے ، یہ عوام کو اپنے بھکاری ہونے کا یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے جو اس بات کی گواہی ثابت ہوگی کے آنے والا وقت حق کا ہوگا پاکستان کا ہوگا ۔ بس ذرا سا صرف پاکستانی ہوکے سوچنا ۔ ہم بھی کہیں ویسی کسی نافرمان قوم کی طرح نا ہوجائیں جہاں انصاف امیر کیلئے ہوتا تھا اور سزائیں غریبوں کو ملا کرتی تھیں ۔ یہی وہ راستے ہیں جن پر سفر کرنا آپکا کام ہے منزل پر پہنچانے والا کہیں اور بیٹھا ہے اور وہ منزل تک پہنچا کر ہی چھوڑتا ہے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔