سیاسی عدم استحکام کی گھمبیر صورتحال

یہ امر واقعہ ہے کہ آج ملک میں تیزی سے پھیلتے سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی فضا سے ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اپنی سازشوں کو وسعت دینے کا نادر موقع مل رہا ہے جس نے ”را“ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو افغانستان کے راستے سے پاکستان میں داخل کرکے یہاں دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوںپشاور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر کیا گیا خودکش حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی جس میں مجموعی 72 نمازی شہید اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے آپریشنز میں مصروف عمل پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی مزاحمت اور ان پر حملوں کا سلسلہ بھی ان دہشت گردوں کی جانب سے جاری ہے، بلوچستان کے علاقے سبی میں بم دھماکہ کے نتیجہ میں چار ایف سی اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔ اس واردات میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کو دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل بھی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر دہشت گرد حملوں کے نتیجہ میں دو درجن کے قریب سکیورٹی جوان اور افسران شہید ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پانے کے بعد پاک افغان سرحد پر پاکستان کی جانب سے لگائی گئی باڑ کو طالبان کی جانب سے قبول نہ کرنے کے نتیجہ میں بھارت کو اس سرحد کے راستے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کا موقع ملا جنہوں نے یہاں دوبارہ منظم ہو کر دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران حکومت اور اپوزیشن قیادتوں کے مابین شروع ہونیوالی اقتدار کی رسہ کشی کے باعث ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی فضا ہموار ہوتی نظر آئی تو بھارت نے اسے بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پھیلانے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بالخصوص وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد سے امن و امان کی فضا مزید مخدوش ہوتی نظر آنے لگی ہے تو بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف کھیل کھیلنے کا مزید موقع مل رہا ہے۔

محسوس یہی ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان میں پیدا شدہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کو بھانپ کر اسکی دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کیلئے میزائل داغنے والی شرارت کی ہے جس کے بارے میں ہماری سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بروقت اور بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور بھارت کے علاوہ عالمی برادری کو بھی باور کرایا گیا کہ اس میزائل کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود کو سخت خطرے سے دوچار کیا گیا او اس دوران محوِ پرواز ملکی اور غیرملکی پروازوں کی تباہی پر منتج ہو سکتا تھا جبکہ اسکے زمین پر گرنے سے بھی بڑے انسانی جانی نقصان کا خدشہ تھا۔بے شک عساکر پاکستان تو ملک کی سلامتی کو درپیش کسی بھی اندرونی اور بیرونی چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کیلئے مکمل تیار اور چوکس ہیں اور کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کر رہیں۔ دفاع وطن کے تقاضے نبھانا عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بنیادی حصہ ہے اس لئے قوم اپنی افواج پاکستان کی خداداد صلاحیتوں اور مہارت و مشاقی کے باعث دفاع وطن کے معاملہ میں مکمل مطمئن ہے تاہم موجودہ صورتحال میں قومی سیاسی قیادتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلنے سے گریز کریں تاکہ تاک میں بیٹھے ہمارے مکار دشمن بھارت کو ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ لہذاہماری قومی سیاسی قیادتوں کو باہمی سیاسی اختلافات اس نہج تک نہیں لے جانے چاہئیں کہ عساکر پاکستان کی توجہ ملک کی سرحدوں پردرپیش چیلنجوں سے ہٹ جائے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بدستور الجھاﺅ اور بے یقینی کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کھینچا تانی‘ ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تناﺅ اور کھچاﺅ کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ تلخی بڑھتی چلی جارہی ہے‘ جس کی وجہ سے آنیوالے دنوں میں انتشار‘ بدامنی اور تصادم کی فضابنتی دکھائی دیتی ہے جو ملکی سلامتی کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ہے۔

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی طرف سے لانگ مارچ اور جلسہ کی تیاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں پاکستان پیپلزپارٹی بھی شرکت پر آمادہ ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان سے ملاقاتیں اور مشاورت مکمل ہو چکی ہے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان سے پیپلزپارٹی کے قائد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہبازشریف نے بھی ملاقات کی اور سیاسی لائحہ عمل سے متعلق بات چیت کی۔ ایم کیو ایم نے مشروط طور پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کی۔ حکومت اور اسکی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بیشک سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ پوری طرح جاری ہے۔بہر حال اب وقت ہے کہ حکومت اور اسکی مخالف سیاسی قیادتیں اپنی اپنی جماعتوں کے حصار سے باہر نکلیں‘ قائدین اپنی ذاتی مصلحتوں اور مفادات کو تج کر صرف قومی مفادات اور ملکی سلامتی کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ تحریک عدم اعتماد بلاشبہ اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق ہے اور اپنے اس حق کے استعمال کیلئے جو آئینی اور قانونی راستہ ہے، اسے ضرور استعمال کرے۔ اسی طرح حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا اس کا جمہوری حق ہے۔ اس لئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کا تقاضا ہے کہ فریقین اپنے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں اور اپنی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کا مرکز پارلیمنٹ کو بنائیں۔