مرض ٹی بی (تپ دق) لاعلاج نہیں

تپ دق یا ٹی بی ایک قدیم اور متعدی مرض ہے جس کا جرثومہ ”مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس“ جسم کے کسی بھی حصے پر حملہ آور ہو کر اسے متاثر کر سکتا ہے، مثلاً نظام ہاضمہ، اعصابی نظام، دماغ، آنتیں، ہڈیاں، جوڑ، گردے، جلد، آنکھوں کے پردے،کمر اور غدود وغیرہ، لیکن تپ دق کا مرض تین چوتھائی مریضوں کے پھیپھڑے ہی متاثر کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی اس لیے بھی خطرناک ہے کہ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے تک جا پہنچتے ہیں، لیکن یہ فعال تب ہی ہوتے ہیں، جب قوت مدافعت کم ہوجائے، بصورت دیگر جسم میں موجود ہونے کے باوجود بے ضرر رہتے ہیں، جبکہ لوگوں کا غیر معیاری طرز زندگی بھی اس بیماری کا موجب ہے۔ جراثیم سے آلودہ رہائش، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف اور غیر معیاری اشیاءکھانے سے صحت کا معیار گر جاتا ہے اور یوں انسان اس موذی مرض میںمبتلا ہو جاتا ہے۔ مشقت کی زیادتی بھی ٹی بی کا سبب بنتی ہے۔ ٹی بی کا مرض غریب افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے، تنگ و تاریک اور زیادہ گنجان آباد علاقے بھی اس کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے اس مرض کا بروقت علاج جہاں خود مریض کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے، وہیں دیگر افراد کو تپ دق سے محفوظ رکھنے اور مرض کو معاشرے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

یہ امر انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ ہر سال تقریباً پانچ لاکھ پاکستانی اس مرض کا شکار ہوتے ہیں جبکہ کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار مریضوں کی بیماری کی تشخیص بھی نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں عورتوں میں ٹی بی کا مرض زیادہ ہے جبکہ پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مرد زیادہ مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی نسبت ٹی بی کے مریضوں میں مردوں کی شرح اموات زیادہ ہیں۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی سے مریض کو دماغ اورہڈیوں کی بھی ٹی بی ہو سکتی ہے جبکہ ہڈیوں، جوڑوں، آنتوں کی ٹی بی سے پھیپھڑوں کی ٹی بی نہیں ہوتی۔ بچوں مےںجلد کی ٹی بی کی وجہ یہ ہے کہ اگر گھر میں کسی بزرگ اور بڑے کو پھیپھڑوں کی ٹی بی ہے تو جب وہ بچے کو پیار کرتا ہے اس کا ہاتھ یا منہ چومتا ہے تو ٹی بی کے جراثیم جلد پر لگ جاتے ہیں اس سے بچوں میں جلد کی ٹی بی ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ جلد کی ٹی بی میں جلد پر زخم بن جاتے ہیں۔ اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ جلد کی ٹی بی ہے یا کوئی جلد کی بیماری ہے۔ اگر لیبارٹری میں جلد کی ٹی بی کی ر پورٹ آئے تو فوراً گھر کے تمام لوگوں کی ٹی بی کے مرض کی تشخیص کروانا چاہیے۔

ٹی بی( تپدق) کی عام علامات میں دو ہفتے یا اس سے زائد مدت کا ایسا بخار اور کھانسی، جو عام علاج سے ٹھیک نہ ہو، سینے میں درد، سانس پھولنا، وزن کم ہو جانا، بھوک نہ لگنا یا کم ہو جانا، رات میںپسینہ آنا، کھانسی کے ذریعے بلغم میں یا پھر الگ سے خون خارج ہونا وغیرہ شامل ہیں، جبکہ کسی مخصوص عضو کی ٹی بی میں اس عضو کی اپنی بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس مہلک مرض اور اس کے علاج سے آگاہی نہ ہونے کے سبب ہر سال لاکھوں افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے ایک ماہر معالج مختلف ٹیسٹ تجویز کرتا ہے۔ جیسے جلد، خون کا ٹیسٹ، بلغم کا معائنہ اور سینے کا ایکسرے وغیرہ۔ تاہم ان سب میں مستند بلغم کا ٹیسٹ ہے، جس میں خردبین کے ذریعے جراثیم کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ٹی بی کے حوالے سے متعدد مفروضات، توہمات بھی عام ہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ ٹی بی ایک مکمل اور قابل علاج مرض ہے، لیکن ادھورا علاج، مرض لاعلاج کر دیتا ہے، تب موثر ترین ادویہ بھی بے اثر ہوجاتی ہیں۔لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مریض اپنی دوا کا کورس ہر صورت پوری طرح مکمل کرے۔ تپدق علاج کے دوران مریض کو اچھی خوراک مثلاً دودھ، انڈے ، مچھلی ، گوشت اور پھل وغیرہ دینا چاہیے، پر فضا اور پرسکون ماحول ٹی بی کے مریض کے علاج اور صحت یابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ٹی بی ( تپدق ) کے بڑھتے ہوئے مریضوں کے پیش نظر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے 1994ءمےں گلوبل ایمرجنسی اور منسٹری آف ہےلتھ نے پاکستان مےں24 مارچ 2001ءمےں قرار دےاکہ ٹی بی کے مریضوں کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔ اس کے بعد دنیا کے تمام ممالک کے ہسپتالوں میں ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کا سلسلہ تیزی سے شروع کیا گیا آج پورے پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کی سہولت موجود ہے ٹی بی پروگرام کے تحت یہ کام ملک کے کونے کونے میں کیا جا رہا ہے۔بلاشبہ تپ دق ایک سنگین عالمی اور قومی مسئلہ ہے، جس پر قابو پانا ناگزیر ہے،جس کے لیے بر وقت تشخیص اور مکمل علاج بہت ضروری ہے۔