زمیں تو ماں ہے!

زمیں تو ماں ہے ! پھر زمین کے نام پر اتنا خون خرابا کیوں؟ کیا کبھی ماں کے لیے بھی قتل ہوئے ہیں؟ شامپور میں زمیں کے تنازع میں مارے جانے والے تین بچے اور انکی والدہ کا وقوعہ انتہائی درد ناک ہے، قاتل مسلسل لوگوں کی تنقید، نفرت اور اشتعال کی زد میں ہے، اور ہونا بھی چاہیے، اس نے ایسا مکروہ کام کیا ہے کہ انسانیت تڑپ اٹھی ہے۔ معصوم بچوں اور انکی ماں یعنی اپنا ہی خون اپنے بھتیجے اور دو بھتیجیوں اور بھابھی کا محض زمین کے تنازع پر جھگڑا۔

اس واقعے کے بعد بات صرف دو باتوں کی درخواست لے کر حاضر ہوئے ہیں، حکومت وقت سے اپیل ہے کہ وراثت کی تقسیم کے لیے سخت قانونی نظام بنایا جائے جس کے تحت وراثت خود بخود باپ سے بیٹوں اور بیٹیوں کو منتقل ہو جائے اور ہر ایک کو انصاف کے مطابق اس کا حق مل جائے۔ اس کے لیے جلد از جلد آن لائن سسٹم بنایا جائے جس کے تحت تمام پاکستانیوں کا ریکارڈ آن لائن سسٹم پر ایکٹیو ہو ۔ تمام جائیداد کا اندراج ہو، تمام حقیقی وارثوں کا اندراج ہو، تمام اثاثہ جات صحیح طور پر چھان بین کے بعد آن لائن کر دیے جائیں۔ اور اصل مالک کی وفات کے وقت وہ خود بخود تقسیم ہو جائیں۔ یہ جو وراثت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اس نے کئی گھرانے برباد کیے ہیں۔

پھر جو بے اولاد ہیں انکی وراثت کی تقسیم کا سسٹم بھی آن لائن ہو تاکہ کسی طالع آزما کی نگاہیں اسکی دولت پر گڑھی نہ رہ جائیں اور وہ وارثوں کے ہاتھوں زلیل وخوار ہونے اور طعن و تشنیع سے بچا رہے۔ عوام الناس سے گزارش ہے کہ خود کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے باشعور کریں۔ تمام قانونی پہلوؤں کا علم حاصل کریں۔ دوسروں پر ضرورت سے زیادہ نچھاور نہ ہوں۔ اپنی کمائی اپنے ہاتھ میں رکھیں اپنے خون پسینے سے کمائے پیسوں سے خود کو سہولتیں دیں اور اپنا مستقبل محفوظ کریں۔ ہاں مگر رشتوں کے نبھانے میں جائز حد تک ضرور خرچ کریں۔ اپنوں سے محبت ومروت سے پیش آئیں مگر اپنے ہاتھ کاٹ کر انکے حوالے نہ کر دیں کہ وقت آنے پر انہیں ہاتھوں سے آپکی دھلائی نہ کر دیں۔

اور آخری ایک بات یہ کہ ان سب احتیاطوں کے باوجود کسی نے آپ کا حق کھا لیا ہے اور ناجائز قابض ہو گیا ہے یا آپ کو جائداد کے لین دین، خرید وفروخت یا منتقلی پر کوئی اعتراض ہے تو آپ کے پاس قانونی راستہ موجود ہے۔ خدارا اس قانونی راستے کو ہی اپنا لیں اگر آپ حق پر ہیں تو دیر سے ہی سہی حق آپ کو ضرور مل جائے گا۔ جلد بازی اور مختصر راستے انتہائی خطر ناک ہیں جس میں آپ گلی گلوچ، لڑائی، قطع تعلقی حتیٰ کہ قتل تک کر دیتے ہیں جو عمر بھر پچھتاوے کا روگ بن کر آپ کے ضمیر کی سزا بن جائے گا۔ اور جیل کی کال کوٹھڑی میں عمر قید اور پھانسی آخری انجام ہے جس میں پھندے میں جھولنے کے بعد آپ کے ہاتھ اس جائداد سے خالی ہو جائیں گے جس کے لیے آپ قیمتی انسانی جانیں لے لیتے ہیں۔