گالم گلوچ پنجابی کلچر نہیں

یہ ایک حقیقت ہے کہ کلچر انسان کا ابتدائی استاد ہے جو عمر بھر اس کی رہنمائی کرتااور اس کی شخصیت کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ پنجاب کا اپنا ایک کلچر ہے پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کی ثقافت تہواروں ’کھانوں‘ ملبوسات اور قدیم مقامات سمیت اپنے اندر ہزاروں رنگ سموئے ہوئے ہے۔ پنجابی ثقافت دنیا کی تاریخ میں سب سے قدیم ترین ثقافتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ثقافتی، تاریخی، مذہبی اور جغرافیائی طور پر پنجاب اپنے اندر ہر وہ کشش رکھتا ہے جو ایک سیاح کو اپنی طرف کھینچ لے یعنی پنجاب میں تاریخی قلعے ہیں، دریا ہیں، ریگستانی سلسلے ہیں۔ خوبصورت باغات ہیں۔ پہاڑی سلسلے ہیں اور پنجاب اپنے صحت بخش اور مزیدار کھانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔

ہمارے استاد محترم شیخ الحدیث مولانا مفتی محمود اشرف صاحب جن کا شمار جامع دارالعلوم کراچی کے اکابرین اساتذہ میں ہوتا تھا فرمایا کرتے تھے کہ “کسی کے بارے میں نیک گمان قائم کرنے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں البتہ بدگمانی کیلئے دلیل شرعی چاہئے. اگر آپ کے پاس دلیل موجود نہیں تو بدگمانی کرنا جائز نہیں ہے.

پنجابی زبان کے متعلق یہ بد گمانی عام پھیلائی گئی ہے کہ  ” گالم گلوچ کرنا یہ پنجابی زبان کا کلچر ہے!”

تاریخ کا ہم مطالعہ کریں تو ہمیں بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ پنجابی ایک مقدس اور تصوف والی زبان ہے۔ بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ نے دو سو سال پہلے جو لکھا اس سے پنجابی زبان کی علمی روایت آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔ پھر ہاشم شاہ، میاں محمد بخش اور خواجہ غلام فرید ہیں۔ میں نے لگ بھگ ان تمام بزرگوں کا کلام پڑھا اور کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی پنجابی زبان اور کلچر کی انتہائی قدیم تاریخ کو کمزور یاکم شواہدہونے کی بنا پر تسلیم نہ کرے تو کم از کم ایک ہزار سال کی تحریری تاریخ تو بتاتی ہے کہ قصہ پورن بھگت‘ دلے دی وار‘ مرزا صاحباں‘ سوہنی مہینوال‘ ہیر وارث شاہ میں گروگرنتھ صاحب اسی میں ترتیب پائی۔ اس میں تو کوئی ایسا لفظ نہیں جسے گالی کہا جائے اور پھر اسے پنجاب کے کلچر کا حصہ بتایا جائے۔

گالیاں لغو اور بدتہذیب افراد کی زبان درازی ہے۔ گالیاں جانے کب سے موجود ہیں لیکن کسی قوم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ گالیاں ان کا کلچر ہیں۔ گالیاں دینے والے افراد کا ہنر ہمیشہ کلچر کی شفاف حدود سے باہر رہا۔ اسے کسی دور میں اجازت نہیں ملی کہ وہ سماج کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بن بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد امام دین جیسے قادر الکلام اور بے مثال شاعر نے جب لغو گوئی اختیار کی تو انہیں مسترد کر دیا گیا۔

اس بدگمانی کے باعث آج کل کا نوجوان اور معاشرہ اپنی میراث سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو اپنانے میں شرم محسوس کرنے لگا ہے یا یوں کہ لیں کہ جدیدیت کے اس دور میں انسان لباس، زبان، رہن سہن، کھانا پینا ہر لحاظ سے ماڈرن ہو رہا ہے۔جب زبان کمزور ہوجائے تو قوم خودبخود ٹوٹ جاتی ہے۔ ثقافت سلامت رہتی ہے نہ ادب سمیت کسی بھی روایت کی جڑیں مضبوط رہتی ہیں جو اس خطے کا سرمایہ مانی جاتی ہیں۔

موجودہ دور میں پنجابی ثقافت مغربی ثقافت میں بدلتی جا رہی ہے، بھنگرہ اور گدہ ہپ ہاپ ڈانس میں بدلتا جا رہا ہے، فوک میوزک ریمکس میوزک میں بدلتا جا رہا ہے، مکئی اور سرسوں کے ساگ کی جگہ پیزا، برگر نے لے لی ہے اور پنجابی کی جگہ انگریزی نے لے لی۔زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن جو لوگ اپنی تہذیب اور افلاس کی ثقافت کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہ تاریخ کے گمنام اوراق میں گھم ہو جاتے ہیں۔

سازشوں کے باوجود آج بھی پنجاب میں وہی تازگی دکھائی دے رہی ہے جو کسی زندہ ثقافت کے سلامت اور توانا ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔پنجاب کے عوام اپنی ہزاروں سال پرانی روایات اور ثقافت سے محبت کے اظہار کےلئے ’’پنجاب کلچرڈے‘‘منارہے ہیں۔اس صورتحال میں پنجاب کلچر ڈے منانے کا انعقاد کرنا نہایت اہم ہے۔ جو ہر سال 14 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد نوجوانوں میں پنجابی ثقافت کی اہمیت کو جاگر کرنا ہے۔