تحریک عدم اعتماد، کون کس کا اتحادی ؟

 

آج ایک مرتبہ 90 کی دہائی یاد آرہی ہے۔ ان 30 سالوں میں بہت کچھ بدل گیا اگر نہیں بدلا ہمارے ملک کا طرز سیاست نہیں بدلا۔ وہی کھیل وہی کھلاڑی ہیں اور وہی تماشائی ہیں تو وہی امپائر ہیں۔ 90 کی دہائی میں چھانگا مانگا تھا تو آج ہر طرف ہی چھانگا مانگا کا سماں ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کون کس کا اتحادی ہے۔ پانچ سیٹوں والے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں تو چھ سیٹوں والی ایم کیو ایم گورنری کی خواہشمند۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایک سیاسی جمعہ بازار لگا ہوا ہے جس میں ہر اسٹال کا مالک اپنے پھیکے پکوانوں کے بھی اونچے دام بتارہا ہے۔ دوسری طرف حکومت ہے۔ نہ گھبرانے کا درس دینے والے اس عدم اعتماد کی تحریک سے گھبرائے ہوئے ضرور لگ رہے ہیں اور زبان سے شعلے نکل رہے ہیں۔ مخالفین کے لتے لیے جارہے ہیں اور ایسی زبان استمعال کی جارہی ہے کہ مفتی تقی عثمانی بھی کہہ بیٹھے ہیں کہ “خدارا سوچیں ہم کہاں جارہے ہیں “

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسے وقت میں جب عمرانی حکومت خود اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اپنے بوجھ تلے خود گرنے والی تھی اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ؟ کیا اپوزیشن کے لیے یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ مزید ایک سال انتظار کرلیتی اور عمراب خان کی پی ٹی آئی کو پانچ سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد عوام کے کٹہرے میں لے کر جاتی کہ جہاں اس کے پاس سیاسی شہید کا درجہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں اپوزیشن کچھ جلد بازی کرگئی ہے۔ ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے اور باقی مدت کے لیے متحدہ اپوزیشن حکومت بنالیتی ہے تو اس کا سیاسی فائدہ کس کو ہوگا ؟ یہ کیسی حکومت ہوگی کہ جس میں نواز شریف، زرداری، ق لیگ، اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علما اسلام سب ایک پیج پر ہوں گی اور ان کی مخالف بس تحریک انصاف ہوگی۔ کیا یہ جماعتیں حکومت گرانے کے چکر میں آئندہ الیکشن کو بھول چکی ہیں؟ یہ کیسے الیکشن ہوں گے تمام جماعتوں کی مخالف بس ایک تحریک انصاف ہی ہوگی۔ “بھان متی” کے اس کنبے کی یہ مجبوری ہوگی کیونکہ بغض عمران میں بننے والا یہ اتحاد الیکشن میں بھی ان کا پیچھا کرے گا۔

عمران خان کی وفاقی حکومت کو ہم اس ملک کی ناکام ترین حکومتوں میں شامل کرسکتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی ایسی تھی کہ اسے آئندہ عام انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن یہاں تحریک انصاف کو اپوزیشن کا شکر گزار ہونا پڑے گا کہ جس نے تحریک عدم اعتماد پیش کرکے تحریک انصاف کو ایک نئی زندگی دے دی ہے۔ خاں صاحب نے عوامی جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے اور وہ اب ببانگ دہل اپوزیشن کو للکاررہے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ وہ اپوزیشن کو اپنی پچ پر کھلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ہر دو صورتوں میں اس کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہی پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے۔

اس وقت سب سے نازک صورتحال ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق)کے لیے ہے۔ چند ماہ کی وزارت اعلیٰ اور گورنری کے لیے اگر یہ جماعتیں اپوزیشن کے ساتھ مل جاتی ہیں تو اس کا خمیازہ ان کو آئندہ عام انتخابات میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔ خاص طور پر ایم کیو ایم پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ اس کی سیاست کا محور ہی اس وقت پیپلزپارٹی کی مخالفت ہے۔ وہ پیپلزپارٹی سے اتحاد کرکے اپنے مہاجر ووٹرز کو کس طرح مطمئن کرے گی کہ یہ وہی پیپلزپارٹی ہے جس کو وہ چند ماہ پہلے تک مہاجر دشمن قرار دے رہے تھے اور اس کے رہنما اندرون سندھ سے آنے والوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ اپنی سندھی ٹوپیاں ٹول پلازہ پر جیبوں میں رکھ لیا کریں۔ ایم کیو ایم کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ اس کے بانی کی ایم کیو ایم نہیں ہے کہ وہ جس سے چاہیں اتحاد کرلیں مہاجر ووٹر ان کو ہی ووٹ دے گا۔ یہ وہ ایم کیو ایم ہے جس کو 2018 کے انتخابات میں کراچی سے صرف چار نشستیں ہی مل سکی تھیں اور اگر اس نازک صورت حال میں ایم کیو ایم نے اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال دیا تو اس کے لیے آئندہ یہ چار سیٹیں بچانا بھی مشکل ہوجائے گا۔