برفباری کی دیر ہے صاحب !

رواں سال کی ابتداء میں ملکہ کوہسار مری میں ایک دلخراش حادثہ پیش آیا  جس میں درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار گئے، محکمہ موسمیات کے بار بار خبردار کرنے کے باوجود بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک کے طول و عرض سے مری کا رخ کیا۔انتظامیہ نے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے دیا بلکہ کچھ وزرا نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی معیشت کی کامیابی قرار دیا۔ خراب موسم نے طوفان کی شکل اختیار کر لی جو کہ مری کی تاریخ کے شدید ترین برفانی طوفانوں میں سے ایک تھا۔

ٹریفک گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سست ہوتے ہوتے آخر کار جام ہوگیا اور لوگ اس شدید سردی اور برفانی طوفان میں گاڑیوں میں پھنس گئے۔ مقامی افراد نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موقع کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم کر دیا گیا۔ گرم پانی کے ایک گلاس کے 100 روپے مانگے گئے، ایک ابلا ہوا انڈا 500 روپے کا فروخت کیا گیا۔ ایک ہزار والے کمرے کا کرایہ 50 ہزار تک لیا گیا۔ سیاحوں کے زیورات تک گروی رکھ کر صرف ایک رات گزارنے کی جگہ دی گئی۔ خواتین اور بچوں کو تو حالت جنگ میں بھی پناہ اور امان دی جاتی ہے مگر ملکہ کوہسار کے باسیوں کے دل بھی شاید پہاڑوں میں رہ کر پتھر کے ہو گئے ہیں۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد گاڑیوں میں ہی رکنے اور رات گزارنے پر مجبور ہوگئی۔ شدید سردی کی وجہ سے گاڑیوں کے شیشے بند کرکے ہیٹر چلا دیئے گئے۔ شدید برفباری سے گاڑیوں کے سائلنسر برف میں پھنس گئے جس سے ہیٹر سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ گیس گاڑیوں میں ہی جمع ہوتی رہی۔

یاد رہے کاربن مونو آکسائیڈ کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے جو کہ محسوس ہوئے بغیر ہی انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور یہی خاموش قاتل بہت سی قیمتی جانیں نگل گیا۔ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والے افراد کو جنت اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین

اس سارے حادثے میں مقامی حکومت کی کارکردگی صفر رہی جب کہ پاک فوج نے امدادی آپریشن کرتے ہوئے لوگوں کو مری سے نکالا ، حکومتی نمائندے اگلی صبح لوگوں کو صرف 500 سو روپے دے کر آپس میں بانٹنے کی تلقین کرتے ہوئے پائے گئے۔ میرے نزدیک اس سارے واقعے میں بہت سے عوامل کارفرما رہے تاہم مری کے مقامی لوگوں کی بے حسی اور موقع پرستی سب سے نمایاں رہی اور بلاشبہ اہلیان مری کا رویہ قابل مذمت اور ناقابل معافی ہے۔

اب ایک نظر اپنے معاشرے اور گردونواح پر ڈالتے ہیں۔ میری نظر میں بحیثیت قوم ہم سب مری والے ہیں۔ ہم سب موقع پرست ہیں اور موقع ملتے ہی اپنے ہی بھائیوں کو گھات لگاکر مارتے ہیں کبھی دکھاوے، کبھی لالچ، کبھی بے حسی، کبھی رشوت، کبھی سفارش،کبھی حسد، کبھی جھوٹ، کبھی نفرت، کبھی بغض، کبھی منافقت اور نہ جانے کتنے ہی ایسے اداروں سے اپنے ہی بھائیوں کا خون کرتے ہیں۔ ہم دین کے راستے سے ہٹی ہوئی ایک منافق قوم ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ہم ایک دوسرے کے گرنے کا انتظار کرنے والی اور انسانیت کے اصولوں سے کوسوں دور صرف ایک موقع پرست قوم ہیں، جو ہمیشہ کسی برف باری کے انتظار میں رہتی ہے۔

خدارا اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھیں، انسانیت ہر دین،ہر مذہب کی بنیادی اساس ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں تو چودہ سو سال پہلے اسلام کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کی صورت میں بلاشبہ ہمیں انسانیت کا ہی درس دیا ہے. خدارا خود پرستی دکھاوے اور موقع پرستی سے باہر نکلیے اور خود کو انسانیت سے بھرپور ایک زندہ قوم ثابت کیجئے۔

اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو ، آمین