“روس یوکرائن مسلح تنازع، دنیا تیسری جنگ کے دہانے پر”

روس اور یوکرائن کے درمیان روایتی جنگ جاری ہے،روسی توپ خانے اور فضائی حملے اس وقت اہم اہداف کو تباہ کرنے اور بڑے شہری مراکز میں فوجی اثاثوں اور سویلین انفرااسٹرکچر کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہیں۔ 90ءکی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھاجس نے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے 24 اگست 1991 ءکو اپنی خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان کیا۔

ماسکو کو یورپ میں قابو کرنے کے لئے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ جن کی سرحدیں یوکرین سے ملتی ہیں میں فوج اتار کرہتھیار نصب کر دئیے۔ یاد رہے کہ 2014 ءمیں ماسکونے جزیرہ نما کریمیا علاقے کو اپنے اندر شامل کر لیا تھا ۔ ماسکو کی ہمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ یوکرائن اور جارجیا کو کسی بھی حالت میں نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے۔

پیوٹن کی یوکرائن پر حملے کے بعداب نئی پابندیوں کی صورت میں امریکہ اور مغرب کو تنبیہہ تعلقات بری طرح متاثر کر سکتی ہے جس پرسبھی تشویش کا شکار ہیں۔ روس مغربی ممالک پر دباو¿ ڈالنے کی خاطر لیبیا سے مہاجرین کا ایک نیا سیلاب یورپ کی طرف موڑ سکتا ہے اس کی افواج شام میں بھی تعینات ہیںبالخصوص طرطوس کی بندرگاہ میں بحریہ نے ایک اڈہ بنا رکھا ہے۔ یوکرائن کا نیا فوجی جغرافیہ یعنی پیوٹن کہاں رکنے کا فیصلہ کریں گے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دوسری جانب یوکرائن کی مدد کیلئے امریکی افواج بھجوانے سے دوٹوک انکارکے بعد امریکہ میں جوبائیڈن کیخلاف ایک نیا محاذ کھل گیا ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ بیان کتنا شرمناک ہے کہ ان کی افواج صرف نیٹو ممالک کی حفاظت کریں گی وہ اپنی فوجیں یوکرین نہیں بھیجیں گے۔ اگر نیٹو چاہتی تو وہ یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے فوری طور پر اپنی فوجیں وہاں بھیج دیتیں لیکن ان کا بغلیں جھانکنا پوری دنیا کو حیران کر گیا۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے اپنی بے عزتی کرائی ہے۔

اس سے پہلے بھی وہ کیوبا، ویتنام اور افغانستان کی دھول چاٹ چکا ہے وہ ممالک جو روس سے الگ ہو کر نیٹو میں شامل ہو گئے تھے، اب ان پر بھی خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ امریکی انٹلیجنس ایجنسی نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری کرچکا ہے۔ یوکرین تو سمجھ رہا تھا کہ امریکہ اس کا محافظ ہے لیکن امریکہ نے ہی یوکرین کو آ گ میں دھکیلا ہے، اگر امریکہ اسے نہ چڑھاتا تو اس کے صدر ماسکو کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاہدہ کر لیتا ۔ موجودہ حالات کے پیش نظرروس کی یوکرائن پرچڑھائی کے بعد اس کے عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خطرے کو بھانپ کر اقوام عالم بشمول عالمی طاقتوں کی جانب سے اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے امن مذاکرات کےلئے دباﺅ ڈالا جارہا ہے ۔

بلاشبہ عالمی افق پر قبضے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے جو جنگ شروع کی آج وہ اس میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں چین کے ساتھ امریکہ کا مقابلہ بڑھ گیاتھاجس سے صورتحال روز بروز یکسر تبدیل ہوتی گئی کیونکہ اس وقت روس اور چین دونوں کا ایک ہی مخالف تھا یعنی امریکہ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ اور چین کی اقتصادی ودفاعی ترقی نے امریکہ کوایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شروع کردہ جنگ میں شکست کی بڑی وجہ اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے بڑھتے ہوئے مالی اخراجات اور جانی نقصانات تھے۔2001ءمیں امریکہ اور اس کے اتحادی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں تبدیل ہوجائے گی ۔ ماسکو حکومت بھی اپنے اہم اتحادی ملک شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھارہی ہے۔

یاد رہے کہ شام میں روس کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اس خطے میں سمندری راستے سے جتنی بھی امداد جاتی ہے وہ یہیں سے ہو کر دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے اور اگر یہ امداد روک دی گئی تو مہاجرین کا ایک طوفان یورپ کی طرف نکل کھڑا ہو گا۔ اسرائیل بھی اس جاری تناو¿ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ صہیونی فورسز شام میں ایرانی فوجی تنصیات کو نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ پیوٹن نے ابھی تک اس بارے میں اپنی آنکھیں بھینچ رکھی ہیں۔ امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مشرقی بلاک پھر ابھرے اوراس کی سامراجیت کیلئے چیلنج بنے۔ اور روس کو یہ منظور نہیں ہے کہ اس کا کوئی پڑوسی ملک جو پہلے اس کا باج گزار رہ چکا ہے، امریکہ اور نیٹو اتحاد کی گود میں جا بیٹھے۔ روس کے حالات کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد روس نے بڑی تیزی سے خود کو سنبھالا ہے، عسکری قوت میں بے پناہ اضافہ کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کیا ہے۔ دوسری جانب دنیا پر یک و تنہا حکومت کا خواہش مند امریکہ، روس کے چاروں جانب نیٹو افواج کی چوکیاں قائم کرچکا ہے۔ یوکرین بھی امریکہ سے جنگی امداد لینے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔

دیکھاجائے تو روس نے یوکرین پر حملہ کرکے امریکہ کی سامراجیت کو چیلنج کردیا ہے اور جیسا کہ امریکہ کی اب تک کی تاریخ ہے کہ جب اس کے مفاد پر آنچ آتی ہے تو وہ دوسری حکومتوں اور ملکوں پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ روس اور یوکرین کے معاملہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اپیل سے آگے بڑھے اور اپنا فعال کردار اداکرے۔ اگر یہ جنگ پہلے ہی مرحلے میں نہ روکی گئی تو عین ممکن ہے کہ یہ تیسری عالمگیر جنگ بن جائے۔اس جنگ کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے نتائج کا ملبہ کس کے سر ڈالا جائے گا؟۔ دو عالمی جنگوں کی ہولناکی دیکھنے والی دنیا کیلئے بہرحال یہ تیسری عالمی جنگ ایک اور بھیانک تعبیر بن سکتی ہے۔ ویسے بھی آج کی دنیا دہشت گردی، خانہ جنگی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ کورونا کی وبا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ ان کی وجہ سے روزانہ ہزاروں اور لاکھوں عام لوگوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں۔دنیا کے کئی ممالک کی معیشتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ ان حالات میں دنیاکسی اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں ایٹمی جنگ کا آغاز ہوا تو وہ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ عالمی تباہی پر منتج ہو گی۔ روس کے ساتھ تجارتی ودفاعی تعلقات مستحکم کرنا پاکستان کے بہترین مفادات میں ہے۔ روس اور یوکرائن کے مابین کشیدگی کے حوالے سے ملکی اور قومی مفادات کو پیش نظررکھتے ہوئے جو پالیسی اختیار کی گئی وہ خوش آئندہے یقینا اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔