رشتوں کا تقدس

میں آج کھانا نہیں پکاﺅں گی اور ہاں صفائی بھی نہیں کرونگی ۔ بچوں کو آپ نہلائیں ، گڑیا آپ بھی اسکول کا کام بابا سے کروائیں ، آج بالکل کوئی کام نہیں کرونگی! بالکل کسی کو کوئی احساس ہی نہیں ؟ سارا دن کام کرکے تھک جاتی ہوں ، کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا ۔ رکھنا، رکھانا، کھلانا پلانا، پکانے سے زیادہ نکالنا، دینا، واپس رکھنا، مت ماری گئی ہے! مجھے تو کھانے تک کا ہوش نہیں رہتا، پھر بھی میں بُری ہوں ! راضیہ نے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا جو اتوار کی صبح دیر تک بستر دراز رہنے کے بعد کچوریوں کی فرمائش کر بیٹھے تھے ! بس پھر کیا تھا منے کا پیمپر بدلتے وقت ساری بھڑاس شوہر پر نکال دی ۔

شوہر صاحب کچھ دیر خاموش رہے اپنے موبائل پر نظریں جمائے سنتے رہے ۔ واقعی اس پر بھی بڑا بوجھ ہے ساری رات منا اتنا مچلتا رہا اور ماں کو بے سکون کرتا رہا ۔ نجانے کب سے گڑیا تنگ کر رہی ہے؟ اور میں ؟ میں کیا کر رہا ہوں؟ نگاہیں جیسے ٹک سی گئیں لکھا تھا “خوا تین کے لئے گھر کا کام کاج کرنا باعثِ اجر وثواب ہے،” اور گناہوں کی معافی اور جنت میں دخول کا ذریعہ بھی ہے ۔ میں تو سوچ رہا تھا ابھی اسے اس کی ماں کے گھر چھوڑ آﺅنگا جتنا چاہئے آرام فرمائے “پھرسوچا کیوں نا یہ پیغام فارورڈ کردوں ” شاید سدھار آجائے بیگم صاحبہ میں ؟ چلو پہلے خود تو پورا پڑھ لوں پھر اسے آگے بھیجونگا ۔ آج تو بھائی بھابی آنے والے ہیں ! اسے کیسے تسلی دوں کہہ تو صحیح رہی ہے ، خیالات کی دنیا سے نکل کر ایک بار پھر نظر موبائل پر پڑی سلیقہ اور حسن تدبیر سے کام کرنے والی عورت گھر کے ہر فرد کے دل میں محبوب بن جاتی ہے جبکہ کام چوری عورت میں بڑا بلکہ بہت ہی بڑا عیب ہے۔

صحابیات دین کی محنت کے ساتھ ساتھ گھروں کے کام بھی انجام دیتی تھیں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی ، آٹا پیسنا ، تندور کیلئے لکڑی جلا کر روٹی پکانا، کھانا تیار کرنا ، پانی بھرنا ، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب مشقت کے کام کرتی تھی لیکن آجکل باوجود سہولیات کے بعض خواتین سُستی کا مظاہرہ کرتی ہیں ، کام چوری کرتی ہیں اس لئے گھر میں فساد ہوتا ہے اور یوں گھر بگڑتا ہے ۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے کام کی زیادتی کے باعث خادم طلب کیا ۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا “اے میر ی بیٹی جب تک سب اہل مدینہ کو غلام یا باندی میسر نہ آجائے اس وقت تک میں اپنی بیٹی کیلئے غلام یا باندی کو پسند نہیں کرتا لہٰذا تم کام سے تھک جاﺅ اور رات کو بستر پر لیٹنے لگو تو 33دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ یہ غلام اور باندی کی خدمت سے زیادہ بہتر اور طاقتور ہو گا ۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسماءرضی اللہ عنہا کی شادی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ان کے پاس کوئی جائیداد وغیرہ نہ تھی ۔ حضرت اسماءؓ ان کے گھوڑے کو خود پانی پلاتیں ۔ لمبی لمبی مسافت طے کرکے اونٹ کیلئے خود گھٹلیاں لاتیں اور پیس کر اونٹ کو کھلاتیں اور گھر کے تمام ہی کام خود کرتیں ۔ پھر حضرت ابو بکرؓ نے ان کو ایک خادمہ دی جس سے ان کے کاموں میں آسانی ہوگئی لہٰذا عورت گھر میں جو کام بھی انجام دیتی ہے ان سب پر اجر لکھا جاتا ہے اور انسان کے اعمال کا کچھ بھی پتا نہیں چلتا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو پسند آئے اور اس کام اور اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی محبوب بندیوں میں شامل فرمالے لہٰذا خدمت اور ثواب کی نیت سے خوب شوق سے گھر کے کام کاج میں حصہ لیں ، گھر کی دوسری خواتین پر طنز کرنے کے بجائے خود ہی اجر و ثواب کمانے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیں۔

اچانک کچوریوں کی خوشبو نے دماغ معطر کردیا ۔ محبت اور خوشی کے احساس نے طبعیت فریش کردی ۔ سوچا کیا کہوں کیا جواب دوں اس مہربانی کا بیگم صاحبہ کی ؟ اس محبت بھری مشقت کا ´! دل نے جواب دیا “یہ میسج”یہ موبائل نعمت ہے اگر بہتر استعما ل کریں تو ! لہٰذا واہ واہ کا نعرہ لگاتے ہوئے بیگم کو یہ میسج فارورڈ کیا اور اللہ کا خاص طور پر شکر ادا کیا جس نے مجھے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کا موقع دیا ۔ پڑھا ہوا میسج بیگم کو فارورڈ کرکے میں نے کہاواہ! واہ آج تم آرام کرنا ،ذرا میں کچوریاں کھا لوں پھر دیکھنا منٹوں میں سب کام ہو جاتے ہیں ۔ گڑیا ! آج آپکو اسکول کا کام ہم کروائیں گے آجاﺅ پہلے ناشتہ کر لیتے ہیں اور پھر منے کو بے بی سیٹر میں سیٹ کر کے منہ پھولی بیگم کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھے تو منا بھی زور زور سے وا ! وا ! وا کرنے لگا اور راضیہ کچن میں سے کچوریا ں سمیٹتی اور کمرے میں لاتی ہوئی بے ساختہ واہ! واہ کہنے لگی ۔ یہ تو ایک مختصر واقعہ تھا جو اکثر بیشتر گھروں میں پیش آتا ۔ مگر میں سوچنے لگی کہ واقعی مستحکم اور منظم گھرانے اچھی نیت اور نیک جذبوں سے اور اچھے رویوں سے بنتے ہیں تا کہ شور شرابہ، نفرت تو تو میں میں سے لیکن اس لئے سب کی خدا خوفی اور دین کا شعور ہو نا ضروری ہے۔ جب ہی تو آپ اپنے حقوق کو پہچا نیں گے ؟ ایک ذرا سی اچھی بات اور رہنمائی کس طرح بندے کا کردار بد ل دیتی ہے۔

مانا کہ آجکل خاندان سکڑ کر ایک مختصر چند افراد کی فیملی بن گئی ہے اور اس میں بھی ہزار ہا سہولیات کے باوجود ہم خواتین منہ بناتی رہتی ہیں ۔ عورت کو تو اللہ تعالیٰ نے ماں بنا کر بہت سی اضافی صفات عطا کی ہیں ۔ ہمیں تو رب کا شکرادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں ایک بھرپور مصروف زندگی دی اسے فرض سمجھ کر گزاریں گے اور سب کے حقوق، اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے یعنی ثواب کی نیت سے کرینگے تو واقعی دل ہی کیا روح تک سکون پائیگی ۔ انشاءاللہ اور دوسروں کے چہروں پر خوشیاں دیکھ کر انسان کو جو خوشی ملتی ہے اسکا اندازہ صرف خوشی دینے والا ہی کرسکتا ہے ۔ شکر الحمد للہ یہ کام عورت بخوبی کرسکتی ہے مجھے یقین ہے کہ فارورڈ میسج پڑھ کر راضیہ صاحبہ نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا اور اپنے شوہر پر فخر کرے گی کہ اتنا اچھا پیغام دیکر انہوں نے تو میری آنکھیں کھول دیں اور خود آپ شرمندہ بھی ہوگی کہ میں نے خواہ مخواہ باتیں سنا دیں ۔ صبح ہی صبح یا شاید اپنے شوہر کیلئے ڈھیرو ں پیار اور خوشیاں ڈھیروں دعا ﺅں کے ساتھ لوٹا ئی ہونگی یہ تو رب ہی جانتا ہے ۔ مگر یہ بات طے ہے کہ جب گھروالی خوش اور مطمئن ہو تو گھرانہ بھی ہمیشہ خوشحال ہوتا ہے پھولتا پھلتا ہے ۔ رب کی عطا پر یہ ہے موبائل کا درست استعمال!