شرم و حیا اور پاکستانی معاشرہ

اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے جس امتیازی خوبی کا تعین کیا ہے وہ ہے. ” حیا”۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ حیا اور ایمان ساتھ ساتھ رہتے ہیں، جب حیا ختم ہو جائے تو انسان کو من مانی کرنے سے روکنے والی اور کوئی چیز نہیں رہتی۔ حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اگر ایک مسلمان کے اندر سے حیا نکل جائے تو ایمان بھی باقی نہیں رہتا آج ہم اپنے معاشرے میں جگہ جگہ پھیلی بے حیائی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے اندر ایمان کی کیا کیفیت ہوگی۔

ایسا کون سا فعل ہے جس میں ہم بے ایمانی کے مرتکب نہ پائے گئے ہوں، حیا کے نکل جانے سے جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا ہے، حرام حلال کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ چوری، ڈکیتی، سود، رشوت، ملاوٹ اسکے ساتھ ہی مقدس رشتوں کی پاسداری کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج کا مسلمان فکر آخرت کی جوابدہی سے آزاد ہو چکا ہے۔ لباس اور حجاب کا تو پاکستانی معاشرے مذاق بناہوا ہے، خاص کر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی ترقی کے بعد سے جس کا جو دل چاہتا ہے پہنتا ہے۔

لباس کا اولین مقصد انسان کی ستر پوشی ہے۔ اس کے بعد لباس زینت اور آرائش کے لئے استعمال ہوتا ہے، وہ بھی محرم رشتوں کے سامنے.. لیکن اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو محسوس ہوگا کہ اب لباس صرف زینت اور آرائش کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ساتھ ہی معاشرے میں بے حیائی کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان میں لباس اور حجاب کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اکبر الہ آبادی کا شعر حاضر خدمت ہے۔

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں

اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

واقعی جو لباس آج کل کی لڑکیاں زیب تن کرتی ہیں ان کو دیکھ کر واقعی سر شرم سے جھک جاتا ہے، مغربی لباس اور اگر مشرقی لباس بھی پہنا جاتا ہے تو وہ بھی مغربی تراش خراش کے ساتھ، حیرت اس بات پر ہے کہ اس طرح کے لباس میں کوئی بھی باپ، بھائی یا شوہر اپنے گھر کی مستورات کو باہر کیسے لے جاتے ہیں؟

اس حیا، اس حجاب کی قیمت کوئی نام نہاد سیکولر ریاست میں بسنے والی باحجاب، با حیا لڑکی مسکان سے پوچھے، جو اپنی حجاب کے خاطر ہزاروں بھیڑیوں اور گیدڑوں کے آگے بھی نہ گھبرائی بلکہ ان کے سامنے کلمہ حق بلند کرکے دنیا کی تمام با حجاب خواتین کی آواز بن گئی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں وہ پاکستان عطا فرما جس کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے اپنی جان، مال اور عزت سب قربان کردیئے تھے، لیکن آج ہمارے حکمران، اراکین اسمبلی ہمارے عظیم رہنماؤں پر الزام لگاتے ہیں کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا ہی نہیں چاہتے تھے.

قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم سے کسی نے دریافت کیا کہ ہندوستان میں بچ جانے والے مسلمانوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ ان کے جان ومال کیسے محفوظ رہیں گے؟ قائد اعظم نے جواب دیا کہ مضبوط پاکستان ہی ان کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔

تمام مسلمان پاکستانیوں سے التجا ہے کہ پاکستان کو “اسلامی جمہوریہ پاکستان” بنانے کے لیے رب کائنات سے دعا کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور کوشش بھی کریں۔ اے اللہ ! ہمیں بے دین قیادت سے نجات دلاکر نیک اور صالح قیادت عطا فرما۔  ٓآمین ۔