آنکھیں کھلی رکھیے‎‎

بات یہ نہیں کہ کس نے کیا کیا؟ بات اتنی اہم بھی نہیں کہ جس پر کوئی باقاعدہ تحریر لکھنی پڑجائے۔ بات یہ بھی نہیں کہ سامنے ہے کون؟ بات یہ بھی نہیں کہ وہ کیا کچھ کرتا رہا ہے ماضی میں؟

جو کچھ وہ کرتا رہا ہے، وہ ہم سب دیکھتے رہے ہیں، ایک زمانہ دیکھتا ہے اور دکھانے والے دکھاتے رہے ہیں بحیثیت اسلامی اسکالر کے اس شخص کو جو دین کا مذاق بنا کر لوگوں میں مکمل طور پر ناقابل قبول نہ ٹھہرا، بڑے معزز اور مذہبی لوگ اس کے مہمان بنتے رہے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ جس وقت وہ دین سے کھلواڑ کرتا سب خاموش تماشائی بنے رہے، کوئی دو چار ہوں گے جو دل میں لعنت ملامت کرلیتے ہوں گے۔

اور اِس وقت بھی بات اس کے طرز عمل سے پیدا ہونے والے معاشرتی بگاڑ کی نہیں کی جارہی۔ سنت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کی نہیں کی جارہی نعوذ باللہ۔ بلکہ ہم سب کے سب ہی لطیفے بنا رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، گپ لگارہے ہیں ۔ ہماری سطحیت کی انتہا دراصل سوالیہ نشان ہے۔

کیا کوئی اس پر بات نہیں کرے گا کہ ایک مسلمان عورت اخلاقی زوال کی کس سطح پر آگئی ہے؟ جائز اور ناجائز کے استحقاق کی بدولت کوئی حدود شرع کو کس طرح غیر محسوس طریقے سے پار کرتا جارہا ہے۔ اور اس سے ہماری نئی نسل اور آنے والی نسل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

بین الاقوامی سطح پر بحیثیت مسلمان ہمارا شخصی تصور کیا بنے گا؟ اور کون اٹھائے گا یہ نکتہ کہ وہ کس حد تک اخلاق سے گری ہوئی عورت تھی کہ جو ایک مرد سے اس کی پہلی بیوی کے متعلق مغلظات سن کر نہ صرف خوش ہوتی ہےبلکہ طلاق بھی دلواتی ہےاور اس وقت یہ نہیں سوچتی کہ آئندہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ارےےےے اتنی غفلت ، اتنی خود غرضی ،

پھر یہ کون عقل سے پیدل لڑکی، اس کا خاندان، والدین کون ہیں؟ جو پہلی دو بیویوں کی بربادی پر خوش و خرم اپنی بیٹی اس خسیس انسان کے ساتھ بیاہ دیتے ہیں جسے رشتوں کا پاس یا قدر نہیں۔ جسے اپنی اولاد کی فکر نہیں رہی۔ بیٹی کے برابر کی لڑکی اس کے نکاح میں بے خوف و خطر چلی آتی ہے اور اس کے سرپرستوں کا کچھ اتا پتا نہیں،کوئی رائے نہیں، یہ شریف خاندانوں کے اطوار ہوتے ہیں؟

یہاں بات دوسری اور تیسری شادی کی مخالفت یا ممانعت کی ہے ہی نہیں نہ ہی یہ دل لگی کی بات ہے دوسری تیسری شادی شریعت اسلامی میں حلال ہے تو حلال ہے، مگر اس کے اصول بھی حلال ہی ہیں، یہ کہیں نہیں لکھا کہ خدا کے بنائے رشتے پیروں تلے روندھتے چلے جاو، اولاد کو احساس کمتری کا شکار کردو، نئی کے پیچھے پرانی کے بخیئے ادھیڑو، اس کی تذلیل کرو، اور پھر چھوڑ دو۔

اس پورے منظر نامے میں اگر کچھ غلط ہے تو وہ ہر فرد کا طرز عمل ہے،اور ہمیں اس طرز عمل پر بہت پہلے آواز اٹھالینی چاہیے تھی۔ لیکن ہر طبقہ فکر کے لوگ اسے ذاتیات سمجھ کر چھوڑنے لگے ہیں، باقی کچھ بچ جاتا ہے تو ہنسی ٹھٹھا۔ اس سے پہلے کہ معاشرہ مزید ابتری کا شکار ہوجائے، رشتوں کا اعتبار اٹھ جائے، نئی نسل شریعت کی اجازت کو اپنے لیے نعوذ باللہ ظلم سمجھنے لگے۔ سنجیدہ مذہبی طبقے کو اس پر واضح نقطہ نظر پیش کرنا ہوگا تاکہ اسلام اور اسلامی خاندان کا مزید مذاق نہ بنایا جاسکے۔ عامر لیاقت ایک مداری تھا ہے اور رہے گا، تماش بینوں کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہییں۔