تبدیلی کہاں آئی؟

تبدیلی کا نعرہ جب لگا تو ایسا طبقہ جو عید کے ساتھ ساتھ الیکشن کی چھٹی بھی سو کر گزارنا پسند کرتا تھا۔ جن کے نزدیک سیاست سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ نہیں- ووٹ کی اہمیت کیا ہے اور ایک ذمہ دار شہری اسے کیسے استعمال کرتا ہے- اس سب سے اس طبقے کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ جن کے نزدیک ووٹ ڈالنے جانا وقت کا زیاں ہی تھا۔ اس ووٹ سے بس چہرے ہی بدلیں گے باقی تو کچھ بدلے گا نہیں۔ سوچ درست بھی تھی۔ لیکن ووٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری اپنے ووٹ کاصحیح استعمال کرنا چاہئیے۔ مگر ان نوجوانوں کا نقطہ نظر اپنی جگہ بالکل درست کہ ایسا کون ہے جو ملک و قوم کو ایک نئی اور سیدھی راہ دکھا دے۔ عمران خان، ہمارے وزیر اعظم صاحب نے تبدیلی کا ایسا نعرہ بلند کیا کہ نیند سے سوئے ہوؤں کو جگا ڈالا، گھروں میں سونے والے نوجوان باہر نکلے اور فخر سے ووٹ ڈال کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا فرض نبھایا۔

نعرہ تبدیلی نے نوجوانوں میں جوش وخروش کے ساتھ ساتھ اُمیدیں بھی جگا دیں کہ اب پاکستان کے حالات بھی بدلیں گے۔ یہاں بھی صحت و تعلیم کو سب سے ذیادہ اہمیت دی جائے گی، ایک عام پاکستانی کا طرززندگی بدلے گا، متوسط طبقہ ذیادہ سے ذیادہ مستفید ہوگا، ایک عام آدمی کا معیار وہ نہیں رہے گا جو پچھلی کئی دہائیوں سے ہے، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس پورا منصوبہ موجود تھا، تیاری مکمل تھی بس حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کی دیر تھی،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سونامی جس کا انتظار تھا وہ آیا؟ تبدیلی جس کی بنیاد پر نوجوان گھروں سے نکلے اور ووٹ کا صحیح استعمال کیا، وہ تبدیلی کہیں نظر آئی؟

حکومت کا پانچواں سال شروع ہو گیا۔ وہ جو تیار کھڑی ٹیم جن کے پاس تمام منصوبے تیار تھے بس اقتدار میں آنے کی دیر تھی، وہ ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ تبدیلی تو آئی ہے۔ ایسی کہ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ روزمرہ اشیاءکی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں تو ظاہر ہے کہ دستر خوان پر کھانا بس پیٹ بھرنے کو ہی رہ گیا ہے۔ دستر خوان کا سائز بدل گیا ہے، کھانے کی مقدار بدل گئی ہے، دیکھا جا ئے تو یہ بھی تبدیلی ہی ہے۔ متوسط طبقہ جو حالات سے لڑ ہی رہا تھا اب اس جدو جہد میں اور اضافہ ہو گیا ہے، مہنگائی نے کمر تو توڑ ہی رکھی تھی لیکن اس سونامی نے اب ریڑھ کی ہڈی ہی چکنا چور کر دی ہے۔

سنجیدہ پہلو بے تحاشہ ہیں مگر ادویات کی قلت؟ کرونا سے بچاؤ اور عام بخار کی ادویات پہلے لاہور سمیت پنجاب بھر سے غائب ہوئیں، اب کراچی اور پشاور میں بھی اس صورتحال کا سامنا ہے، یہی نہیں بلکہ دواؤں کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ادویات کا ذکر ہو تو وزیر صحت عامر کیانی کو برطرف کرنے کی وجہ ادویات کی قیمتوں میں 400 گنا اضافہ، وزیر صاحب تو فارغ کر دئیے گئے لیکن اس سے عوام کا کیا فائدہ ہوا، ادویات کی قیمتیں واپس نہیں گریں بلکہ فارما انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق یہ اضافہ کچھ ادویات میں 30 فیصد اور کچھ میں 400 گنا ہوا ہے۔

تین سال قبل کولیسٹرول قابو میں رکھنے کی دوا 207 روپے لیکن آج 275 روپے، بخار اور سر درد کی جو گولیاں 10 روپے میں 12 ملتی تھیں وہ اب 16 روپے، بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کی دوا 311 سے 397 پر چلی گئی۔روپے کی قیمت کس حد تک گر گئی اور اس کا عام اشیاءپر کتنا اثر پڑتا ہے، پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ مہنگائی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ظاہر ہے جب روپے کی قیمت گرے گی تو درآمدات کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں روزمرہ کی اشیاءکی قمیتیں بڑھ جاتی ہیں عام لوگ اس بات سے نالاں ہیں کہ تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا اور آٹا، دالیں چینی، چاول، گھی، دودھ یہاں تک کہ سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں-

یورو کی قیمت خرید اور فروخت 196 روپے اور 198

برطانوی پاؤنڈ با لترتیب 236 روپے اور 238 روپے

امریکی ڈالر 176 اور 177 روپے۔

اب یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا تھا کہ معیار زندگی بدل جائے گا، یہ ہماری غلطی ہے کہ یہ نہ پوچھا کہ کیسے بدلے گا، اوپر جائے گا یا مزید نیچے آئے گا۔ بنیادی اشیاءجو روز مرہ زندگی کی اشد ضرورت کہا جا ئے تو غلط نہ ہوگا۔ آٹا، چاول، چینی۔اگست 2018 میں مل آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 740 روپے تھی جو اگست 2021 کے اختتام تک 1150 روپے سے تجاوز کر گئی۔ اسی طرح گھی و خوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست 2018 میں 900 روپے تھی وہ اگست 2021 کے اختتام تک 1700 روپے سے تجاوز کر گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے تین سالہ دور میں ہونے والی مہنگائی نے ستر سال کے ریکارڈز توڑ دئیے۔

ایک رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق تین سال میں چالیس فی صد اضافہ ہوا۔ آٹا، گھی اور چینی میں اضافہ تو 50 فیصد تک ہے۔ علمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ 20 سے 25 فیصد تک ہے لیکن پاکستان میں چونکہ تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا تو وعدہ پورا کرنے کی خاطر یہ اضافہ 60 سے 70 فیصد ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر2021 میں مہنگائی کی شرح 8.98 فیصد رہی، 30 اشیا مہنگی، 10 سستی، 21 کی قیمتیں مستحکم رہیں،آٹا، گندم،خوردنی تیل، چینی،چائے، مرغی، پیاز، دال مسور، انڈے، سبزیاں، سرسوں کا تیل،بجلی اور ایل پی جی مہنگی ہوئی۔ اگر ہمسایہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں 2018 میں افراط زر کی شرح 5.1 فیصد رہی جبکہ بھارت میں یہ 3.9 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.5 فیصد اور سری لنکا میں 2.1 فیصد رہی۔ 2020 میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 9.7 فیصد رہی جبکہ بھارت میں یہ 6.6 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.7 فیصد اور سری لنکا میں 6.2 فیصد رہی۔ دسمبر 2021 میں افراط زر کی شرح 5۔11 اور اکتوبر میں2۔9 فیصد تھی۔

ایک عام آدمی کے لئیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ افراط زر کیا ہے، عام فہم زبان میں خریدی جانے والی جتنی اشیاءہیں ان کی قیمت کا بڑھنا افراط زر یا مہنگائی کے زمرے میں آتا ہے، یہ اعداد و شمار سمجھنا شاید ایک سادہ سے پاکستانی کے لئیے مشکل ہو کیونکہ اسے نمبروں اور اصطلاحات سے نہیں حالات سے فرق پڑتا ہے- سمجھ بھی لے تو اس سے معیار زندگی پر کیا اثر پڑے گا، کیا اس سے بجلی، پانی اور گیس کے بل ادا ہو جائیں گے، کھانے پینے کی اشیاء، بنیادی ضرورتیں بآسانی پوری ہو جائیں گی،

تعلیم جو دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے،ا سکولوں کی فیس والدین کے دل دہلا دینے کی حد تک بڑھتی جا رہی ہیں،کیا اس پر قابو پایا جا سکتا ہے- بہت آسان ہے میڈیا پر آکر نمبر اور اصطلاحات کا استعمال کرنا اور سمجھانا کہ یہ شرح فی صد بہت بہتر ہے یا بد تر ہے ، پچھلی حکومت کے مقابلے میں صورتحال کیسی ہے، ایک عام آدمی کی پریشانی اس کی بنیادی ضروریات کا پورا نہ ہونا ہے، پچھلی حکومت یا موجودہ حکومت، ان کا تقابلی جائزہ شاید ٹی وی پر دیکھنے میں تو اچھا لگتا ہو، اخبار کے ایک صفحے کے انٹرویو کے لئیے تو پرکشش ہو لیکن ایک متوسط طبقے یا اس بھی نچلی سطح کا پاکستانی حالات کا مقابلہ کیسے کرے۔

تبدیلی کا نعرہ تو بہت اچھا تھا، تبدیلی نظر بھی آرہی ہے اور ابھی یہ جملہ پھر سے ذہنوں میں گونجنے لگا ہے کہ “آپ نے گھبرانا نہیں ہے“۔ جس طرح ایک عام آدمی کا طرز زندگی بدلا ہے، ایک بیمار کی پہنچ سے دواؤں کا راستہ بدلا ہے، ایسی تبدیلی کا نہیں سوچا تھا، جو سونامی آنے والا تھا یا جس کا وعدہ تھا وہ وفا تو ہوا، اب یہ اور بات ہے کہ اس کی زد میں کون آیا، بظاہر بجلی، پانی اور گیس کے بلوں میں مزید ٹیکس کا اضافہ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور یہاں تک کہ دال سبزی خریدنے میں بھی کیسی کیسی دشواریوں کا سامنا ہے۔ گوشت شاید ایک لوئر مڈل کلاس طبقے کے لئیے لگزری بن گیا ہے تو اس کا ذکر ہی کیا۔

کھا لیا کرتے تھے ہفتے میں گوشت دو بار چھوٹا یا بڑا

افسوس کہ اب تو قیمت پوچھ کر ہی لب سل جاتے ہیں

اوپر بیان کی گئیں رپورٹس شاید کچھ عرصہ قبل کی ہوں۔ جیسے اس ملک میں تبدیلی آرہی ہے۔ جس تیزی سے سونامی گھیرے میں لے رہا ہے تو آج کی قیمتیں ہو سکتا ہے کہ مختلف ہوں۔ اپنے وزیر اعظم خان صاحب کے وعدہ وفا کرنے پر مبارکباد دینی چاہئیے کہ عوام کی جو چولیں کسی گئی ہیں اس پر تسلی دینی چاہئیے۔

خیر جو بھی ہے اپنے وزیر اعظم صاحب وعدے کے پکے ہیں۔ جو کہا پورا کر کے دکھایا، بس ناچیز کو یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ جب تک تحریک انصاف اقتدار میں نہیں آئی تھی تو علم تھا کہ یہی پارٹی نجات دلائے گی، ووٹ تو اپنے خان صاحب کو ہی دینا ہے کیونکہ ناچیز تو ازل سے وفادار، اب بس سوچ کے دھارے بہنے لگے ہیں کہ اگلی بار ووٹ کس کو دینا ہے، یعنی سوچ میں بھی تبدیلی۔

تبدیلی آنہیں رہی۔