اگر خواہی حیات اندر خطر زی (اگر زندگی چاہتا ہے تو خطرات میں بسر کر)

“اگر خواہی حیات اندر خطر زی”اگر زندگی چاہتا ہے تو خطرات میں بسر کر

کوئی اگر تم سے پوچھے کہ زندگی کیا ہے؟

ہتھیلی پر ذرا سی خاک رکھنا اور اڑا دینا

زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے اورمسلسل محنت، کوشش اور مصائب و مشکلات سے چومکھی لڑائی لڑنے سے عبارت ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس دوران بھی زندگی پر ایک جمود سا طاری ہونے لگتا ہے، روزانہ کی روٹین سےجی اکتانے لگتا ہے۔، ہر شخص اور ہر شے سے بے زاری ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی۔ ایسے میں اگر انسان اپنی کیفیت کو سمجھنا نہ چاہے اور اس گتھی کو سلجھانا نہ چاہے تو وہ خود سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے۔

زندگی ہر پل روانی اور بدلاؤ کا نام ہے، جہاں اس بدلاؤ میں ٹھہراؤ آنے لگے، وہیں انسان قنوطیت کا شکار ہونے لگتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ اسے رب رحمان نے مشکل میں پیدا کیاہے، اور مشکل سے لڑنے کے لئے پیدا کیا ہے، بھلے وہ مشکلات انسان کی اندرونی مشکلات ہوں یا بیرونی ۔ فرمان باری تعالی ہے:

لقد خلقنا الانسان فی کبد (البلد)

ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو مشکل میں پیدا کیاہے۔

لہذا یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ چیلنجز کو پسند کرتاہے، کوئی اسے للکارے تو یہ اسکی فطرت کے خلاف ہے کہ وہ اس للکار کا جواب نہ دے،وہ اس للکار کو خالی جانے دینا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ماہرین نفسیات بھی کام نہ کرنے والے سہل پسند انسانوں اور بچوں سے کام کروانے کےلئے یہی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں کہ اسے چیلنج دے کر اکسایا جاتا ہے اور شاذ ہی ہے کہ ان کا یہ طریقہ کار کبھی ناکام ہوا ہو۔

انسان کی تخلیق سے لے کر پیدائش تک، گود سے لے کر پہلا قدم اٹھانے تک، بچپن سے لے کر بلوغت تک، جوانی سے لے کر زواج تک، اولاد کی ولادت سے لے کر ان کی تعلیم و تربیت اور شادی تک، ادھیڑ عمری سے لے کر بڑھاپے تک ، اور پھر بڑھاپے سے لے کر موت تک، ہر ہر مرحلہ انسان کومشکل لگتا ہے ، اور ہر انسان کو یہی لگتا ہے کہ وہی سب سے زیادہ مشکل کا شکار ہے۔ ہر ہر مرحلے کی الگ الگ مشکلات ہیں ، اور انسان یہ سوچتا ہے کہ اگر یہ مشکلات نہ ہوتیں تو زندگی کتنی حسین ہوتی حالانکہ معاملہ اس کے الٹ ہے ۔ زندگی کا حسن ان ہی مشکلات سے عبارت ہے ۔ اگر یہ مشکلات ختم ہو جائیں تو جینے کا مزہ ہی ختم ہو جائے اور انسان کی زندگی سے “جینے” کےآثارمفقود ہو کر رہ جائیں۔

شاعر مشرق، حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام

سخت کوشی سے ہے تلخ ِ زندگانی انگبیں

جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر!

وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

زندگی کی بیرونی مشکلات جو کہ بیرونی عوامل پر مشتمل ہوتی ہیں اور انسان کی بقا کی ضامن ہوتی ہیں، ان کا مقابلہ ہر انسان کرتا ہے، مرتے دم تک کرتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ فنا ہو جائے گا، لیکن انسان کی اندرونی مشکلات جوکہ اسکی روح کی حیات اور بقا کے مقابل آتی ہیں انسان اکثر انہیں نظر انداز کر جاتا ہے کیونکہ وہ اسے ضروری خیال نہیں کرتا۔ حالانکہ ان مشکلات کا مقابلہ ظاہری مشکلات کے مقابلے سے زیادہ اہم اور کٹھن ہے۔ روح، جس کی حفاظت کے لیے یہ بدن بنایا گیا ہے ،جس کو بقاہے، فنا نہیں، جس کے لئے جزا و سزا ہے، جنت و جہنم ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اسی روح کو، اس کی ضروریات کو اور اسکی حفاظت کو نظرانداز کر جاتے ہیں اور باقی تمام عوامل جو اس روح کی بقا، اسکی نشوو نما، اور اسکی حفاظت کے لئے مسخر کئےگئے، ان پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ افسوس صد افسوس۔

اگر ہم زندگی کو قریب سے جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں کسی علم النفس کے ماہر ( (Psychologist سے ملنے کی ضرورت نہیں ،ایک عاقل، بالغ، با شعور انسان با آسانی تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے زندگی کے فلسفے کو جان سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :

“پس ہم نے (ہر نفس کو ) اسکی نیکی اور بدی الہام کی ہے” (الشمس)

پس کوئی بھی انسان جو ہدایت کا طالب ہو اور اس کےلئے سچے دل سے کوشش کرتا ہو تو وہ اسے پا لیتا ہے۔ میں نے ملحد لوگوں کو بھی غور و فکر کے ذریعے خدا تک پہنچتے دیکھا ہے اور خدائے واحد کے ماننے والوں کو عقل استعمال نہ کرنے کی بدولت الحادتک پہنچتے دیکھا ہے۔

یہ روح جس رب کی عطا کردہ ہے اسے پہچانتی ہے۔ اور کم از کم ہر انسان اپنی زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کسی نہ کسی مقام پر اسے جانتا اور پہچانتا ہے اور سچے دل سے اس کے ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اسے محنت، کوشش، لگن، اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ زندگی سہل کسی کی بھی نہیں، لیکن جو کوئی اس کی حقیقت تک پہنچنا چاہے یہ اس کے لئے صعوبتوں کے پہاڑ کھڑےکردیتی ہے اور اس کا امتحان لیتی ہے کہ آیا یہ اس قابل ہے کہ اسے میں اپنی حقیقیت بتاؤں۔ جو کوئی اس امتحان میں سرخرو ہوتا ہے اسے یہ ایسا انعام دیتی ہے جو اس کی زندگی کی باقی ماندہ تمام صعوبتوں کو گلزار بنا دیتاہے ۔ جیسا کہ صوفیاء کرام اور علماء کرام نے اپنی زندگی کی ریاضتوں کا یہ ثمر پایا کہ انہیں پھر کوئی اور چیز بھی متاثر کرنے میں ناکام ہو گئی۔

اقبال فرماتے ہیں:

زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ

جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

کوہ کن جو کہ اپنی ساری زندگانی، ساری عمر ایک پہاڑ کھودنے کی کوشش میں گزار دیتا ہے، وہ زندگی کی اصل کو جانتا ہے، اسکی حقیقتوں کو پہچانتاہے کہ زندگی ایک سنگ گراں ہے، جسے تیشہ سے توڑنا ہے، اور بس یہی زندگی کا مقصد ہے۔ اپنے نفس کے سنگ گراں کو تیشہ کی مدد سے تراشنا ہے اور اس کو رب العالمین کے بتائے ہوئے سانچے میں ڈھالنا ہے، اور یہ کام اتنا مشکل ہے جتنا کہ ایک کوہ کن کے لئے تیشہ کی مدد سے پہاڑ کو کھودنا ۔

اللہ تعالی ہم سب کو زندگی کی حقیقت کو جاننے اور اس کے مطابق اپنی سیرت وکردار کی تعمیرکرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔