سفید اُجلی برف یا اُجلا کفن ؟؟؟

کچھ روز قبل ایک نوجوان کی شاعری نظر سے گزری-

 ایک خفیہ درد کی طرح لگ رہا ہے

سخت اور برداشت کرنے والی سردی

(وقت) کٹتے کٹتے گہرائی سے یہ سرایت کرتا

موسم سرما اپنا شیطانی راستہ اختیار کرتا ہے۔

برف اورہوا، برفانی بھیڑیے کی طرح چیخ رہی ہے۔

روحوں اور غموں کو اپنے اعمال کے تحت پھنسانا

کھوکھلی امید اور دھندلی روشنی منجمد ہو گئی۔

یہ موسم آہستہ آہستہ کچھ تلخ خوابوں کو روندتا ہے۔۔۔

سردی اور برف کبھی زہریلی نہیں لگی مگر مری کا سانحہ سامنے آیا تو یوں لگا جیسے اس شاعری کا ہر لفظ اس درد کی عکا سی کر رہا ہے جو اس خون کو منجمد کر دینے والی ٹھنڈ نے گرم علاقوں کے سیاحو ں اور ان کے کم عمر بچوں، نوجوان دوست جو شاید اپنے شہروں کی آب و ہوا سے نکل کر کچھ روز سفید برف کو آنکھوں میں قید کرنے کے خواب لے کر آئے ہوں- ان سب کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی گردش کو دھیرے دھیرے سرد ہوا کے بے حس تھپیڑوں سے منجمد کر کے، ان کے جسموں میں برف کی سفیدی سے اٹھنے والی سرد اور پیاسی روحیں جو ان کی ہڈیوں تک کو سن کر گئیں-

برف کی خوبصورتی اپنے اندر اتارنے کی خواہش کرنے والے شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ موسم رنگ بدلتا ہے تو چرند پرند کوچ کرنے لگتے ہیں اپنے اپنے گھونسلوں سے لمبی اڑان بھر کر ایسے علاقوں کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں جہاں زندگی کے آثار ہوں- جہاں خون کو جما دینے والی سردی نہ ہو- سفید پری کی مانند نظر آنے والی برف جو وادی کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے- اپنے اندر کیسے طوفان سمیٹے بیٹھی ہے- پرندے قدرت کے ان رازوں کو جانتے ہیں بے شک وہ علم نہیں رکھتے جو علم بنی نوع انسان نے سیکھا مگر موسم کی سختی کو سمجھتے ہیں- درختوں کے کالے تنوں کو اپنی سفید چادر سے ڈھاپے، زمین کی ہریالی کو اپنی آمد کی خبر دے کر دھیرے دھیرے پھولوں کے رنگ، پتوں کا سبزہ چھین کر یہ سفید خوبصورت برف زمین اور پہاڑوں پر اپنی سفید چادر کی تہیں ڈال دیتی ہے- ان تہوں میں کیسی ہولناکی چھپی ہے چرند پرند تو جان لیتے ہیں مگر گرم علاقوں کے انسان اس سے شاید آگاہی نہ رکھتے ہوں-

سننے میں آیا کہ اس موسم سرما میں مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہوئیں- سیاحوں کی بے پناہ آمدو رفت علاقے کے لئیے خوشحالی کا باعث ہے- اور بے شک انتظامیہ، ہوٹلوں کے مالکان ریستورانوں کے لئیے یہ خوش آئند ہے- سو مختلف کمپنیوں نے 929 ارب منافع کی مد میں کمائے اور بڑے بڑے میڈیا گروپس بھی تیس سے چالیس فی صد منافع میں ہیں- جو کہ یقیناً اچھی بات ہے-سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ہوٹل مالکان اپنی تجارت میں مصروف ہیں اور مری کے مقامی ہیں- ان کو موسم کی سختی یا بے حسی شاید اتنا متاثر نہیں کرتی-

یہ سُنا گیا کہ مری میں داخلے سے منع کیا گیا تھا- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موسم کی خرابی کے باعث داخلے پر پابندی تھی تو اتنی تعداد میں گاڑیاں کیسے داخل ہوئیں-

جب موسم خراب ہونے کی اطلاعات ہوں تو عام طور پر جن علاقوں میں برف باری ہو یا طوفان کا خدشہ ہو تو لوگ کام جلد نپٹا کر وقت پر اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں- بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ٹیکسی اور بسیں بھی بند ہو جاتی ہیں- ایسا بیلجیئم کے بہت سے علاقوں میں ہوتا ہے- دنیا بھر میں بھی جب اعلان ہوتا ہے تو ہر خاص و عام کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طور حادثے سے بچا جائے-

بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب کسی‘‘اپنے‘‘ سے یہ سننے کو ملے کہ سگنل لال تھا اور گاڑی یوں بھگائی، ایسے نکالی- یہ بات فخر سے بتائی جاتی ہے سننے والا بھی سراہتا ہے کہ کیا زبردست ڈرائیور ہے- جب انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ علاقہ میں داخلہ بند ہے تو عام عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے موسم میں قوانین کی پابندی کریں- جب موسم کی شدت اتنی ہو تو لوگ بھی اگر اپنا فرض سمجھیں اور قوانین کی عزت کریں-

جب شہریوں کو یہ سمجھایا جاتا رہا کہ آگے آپ کو جانے نہیں دیا جائے گا تو لوگ بضد نظر آئے کہ اتنی دور سے برف دیکھنے آئے ہیں تو ایسا کوئی راستہ بتائیے جہاں رینجرز یا فورسز موجود نہ ہوں اور ہم مری میں داخل ہو جائیں- جب عوام الناس اپنی بہتری کے لئیے لگائی گئی پابندیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی بھی طرح ایسے راستوں پر چلنے کے لئیے تیار ہوں جہاں کسی بھی قدرتی آفت متوقع ہو تو ایسے حالات میں ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے-

بحیثیت ایک قوم، افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب قانون کو توڑنا قابل فخر ہو، جہاں قانون بنانے والے خود اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے قافلوں کے ساتھ سڑکوں پر جہاں مرضی سے گزر جائیں، ہر چھوٹی بڑی آفت کے لئیے عام عوام حکومت پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہوجائے، حکومت ایسے مہروں پر قائم ہو جو قانون کی ہی نہیں اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑا کر آج اس کے ساتھ کل کسی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہوں تو حادثات کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے-

اپنی اور اہل خانہ کی جان سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے- انسان دنیا کی صعوبتیں اپنی اولاد کی خاطر برداشت کرتا ہے مگر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی اولاد کو سفید اور اجلی برف کی خوبصورتی میں چھپی برفیلی اور سرد موت کے پنجوں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو جانے کیا محسوس کرتا ہو-

فواد چوہدری کے بیان کے مطابق ایک لاکھ سینتیس ہزار گاڑیاں چار دنوں میں مری میں داخل ہوئی لیکن انتظامیہ کے مطابق ایک لاکھ ستاون ہزار صحیح تعداد ہے- موسم کی خرابی کے باعث چوبیس گھنٹے تک بجلی معطل کر دی گئی- موبائل سروس بند کر دی گئی- جب موسم خراب ہوا تو چونکہ موبائل سروس میسر نہ تھی تو لوگ مدد کے لئیے کسی سے رابطہ نہ کر سکے- دکھ کی بات یہ ہے کہ مری میں تین ہزار کا کمرہ سیزن میں چھ ہزار کا ہو جاتا ہے-

وجوہات جو بھی رہی ہوں بحیثیت ایک قوم ہمارا رویہ کیسا ہے- کسی قوم میں کوئی بھی آفت آتی ہے تو قومیں یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جلد از جلد حالات پر قابو پا لیتی ہیں- جہاں حکومت کی جانب سے غفلت برتی گئی- انتظامات درست نہ ہونے کہ وجہ سے موسم حادثہ بن گیا- وہاں عام لوگوں کی بھی بہت بڑی کوتاہی ہے کہ جب راستے بند ہونے کی اطلاعات تھیں اور روکا جا رہا تھا تو ضوابط کی پابندی کریں- خاص طور پر جب قدرتی آفات کا معاملہ ہو جہاں بہت بار حالات انسان کی اختیار میں نہیں رہتے- حکومت کی نا اہلی اپنی جگہ مگر ہر معاملہ میں تمام تر حادثات کا ذمہ دار حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا- بحیثیت ایک قوم جب ہم آفات کے موقعوں پر اشیا خوردنی کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تو کم سے کم اپنی جان کی حفاظت کے لئیے اپنے اہل خانہ کی ذمہ داری تو خود اٹھا ہی سکتے ہیں-برف باری ہر سال ہوتی ہے- بلا کی سردی ہر سال پڑتی ہے مگر سفید برف سے لطف اندوز ہونے کی چاہ لئیے شاید یہ نہ جانتے تھے کہ اس بار سفید برف اپنے ساتھ سفید کفن بھی لائی تھی۔