دھرنا اور مذاکرات

جماعت اسلامی کراچی کے دھرنے نے آخرکار پیپلز پارٹی کو سیاسی گھونسا مار ہی دیا سندھ کے وزرا بھاگے بھاگے دھرنے میں پہنچ گۓ ترلے، منتیں کرنے لگے کہ جماعت اسلامی دھرنا ختم کردے،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن بھائی نے جب کارکنان سے پوچھا، ہاں بھئ دھرنا ختم کردیں تو  کارکنان نے پہلے دن والے جوش و ولولے کیساتھ واشگاف نعرے لگا کر انکار کردیا، جب تک کالا قانون سفید نہیں ھوگا دھرنا جاری رہے گا ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

سردی کی شدت اور تیز بارش بھی ان جوانوں کی ہمت کم نہ کرسکی،پیپلز پارٹی حیران و پریشاں ہے یہ کون لوگ آگۓ ہیں،ہم تو جوڑ توڑ میں ثانی نہیں رکھتے ایک زرداری سب پے بھاری والا نعرہ ہی کام کردیتا ہے۔لگتا ہے یہ نعرہ اس جگہ ڈھیر ہوگیا۔مذاکرات کیلۓ آئے وفد نے بتایا وہ بلاول بھٹو کی ہدایت پر آئے ہیں۔یعنی دھرنے کی مانیٹرنگ بلاول ہاؤس میں جاری ہے۔ معاملہ سنگین نوعیت کا ہوگیا ہے۔

پیپلز پارٹی کیلۓ جماعت اسلامی کا یہ دھرنا نہ اُگلا جارہا ہے نہ نِگلا جارہا ہے، پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ دھرنے کو لوکل میڈیا بھی کور کررہا ہے اور اب تو انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کور کرنا شروع کردیا ہے، کراچی کا دھرنا اب پورے ملک کا گرم سیاسی ایشو بن گیا ہے، دھرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کو اطلاع دینے والے یہ اطلاعات پہنچا رہے ہیں کہ اگر بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم نہیں کی گئی تو جماعت اسلامی کا یہ دھرنا ابھی صرف سندھ اسمبلی پر ہے یہ کراچی کی شاہراؤں اور اندرون سندھ کے شہروں میں پھیل سکتا ہے جس کے نتیجے میں سندھ حکومت کی بقا کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور اگر چیف منسٹر ہاؤس پر دھرنا دے دیا گیا تو معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اور حکومت نے اگر بوکھلاہٹ میں دھرنے پر تشدد کیا تو یہ بہت مہنگا پڑ سکتا ہے لہٰذا صورت حال کو ٹھیک طرح سے پرکھا جائے اور صحیح ادراک رکھتے ہوئے بل میں ترمیم کردی جائے،بیشک دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اون بورڈ کرلیا جائے،دھرنے کے حوالے سے بلاول ہاؤس میں میٹنگز ہورہی ہیں، سوچ و بچار کیا جارہا ہے زرداری صاحب خود نگرانی کررہے ہیں شطرنج کے مہرے کو اِدھر سے اُدھر کرکے دیکھا جارہا ہے کہ کیا ہوسکتا ہے۔

جب ملکی سیاسی حالات کو سامنے رکھا جاتا ہے اور دھرنے کی پزیرائی دیکھی جاتی ہے تو زرداری صاحب کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا پہلے تو سوچا گیا تھا کہ ایک دن بیٹھیں گیں پھر یہ گھروں کو چلیں جائیں گے لیکن جب دن بڑھنے لگے تو اندازہ لگایا گیا کہ ٹھنڈ اور بارش انھیں واپس بھیج دے گی، جب یہ بھی نہ ہوسکا تو پریشانی بڑھتے ہی وفد بھیجا گیا کہ چلو اب کمیٹی کمیٹی کھیلتے ہیں وقت پاس کریں گے اور حیلے بہانوں سے رام کرلیں گے لہٰذا یہ فیز شروع کردیا گیا، مذاکرات کے آڑ لیکر سیاسی چال یہ چلنی چاہی کہ چلو بھئ کمیٹی بن گئ ہے لہٰذا اب دھرنا ختم کردیں۔

شائد زرداری صاحب یہ بھول گئے یا ان کی یادداشت کام اب زرا کم کرتی ہے کہ یہ جماعت اسلامی ہے اور یہ جماعت اسلامی کا دھرنا ہے جس کا ایک قابل مثال ماضی بھی ہے احتجاج کرنا سب کو اسی جماعت نے سکھایا ،دھرنا دینا سب کو اسی جماعت نے سکھایا، مذاکرات کے سارے داؤ پیج سے جماعت اسلامی سے زیادہ کون جانتا ہوگا لہٰذا مذاکرات کا جال بچھا کر نرم گرم باتیں کرکے آپ سب کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کو ہر گز نہیں، تو ایسا سوچئیے گا بھی مت۔

بھلائی اسی میں ہے کہ جماعت اسلامی کی ترامیم کو بل کا حصہ بنا لیجیۓ اور یاد رکھیئے اگر تشدد کی راہ اپنائی گئ تو احتجاج کا دائرہ نہ صرف کراچی اور نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔جماعت اسلامی ایک پر امن جماعت ہے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والے لوگ ہیں لہٰذا ! مذاکرات بھی ہونگے اور دھرنا بھی جاری رہے گا۔