دیہی ترقی کا تقاضا

دنیا کے ایسے ممالک جو زرعی اعتبار سے وافر وسائل سے مالا مال ہیں اور اُن کی آبادی کا ایک بڑاحصہ اب بھی دیہی علاقوں میں رہائش پزیر ہے،وہاں وقت کے بدلتے تقاضوں کی روشنی میں جدت پر مبنی دیہی تعمیر و ترقی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ دیہی علاقوں سے جڑے اہم امور میں زراعت کو جد ید خطوط پر استوار کرنا،دیہی علاقوں میں بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی،دیہی باشندوں کو مناسب روزگار کی فراہمی سے اُن کے معاش میں بہتری، دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی،یہ وہ تمام عوامل ہیں جن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار ثمرات حاصل کیے جا سکتے ہیں اور شہروں کی جانب نقل مکانی کے دباؤ میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

چین بھی انہی ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہاتوں میں رہائش پزیر ہے۔چین اگرچہ ایک ترقی پزیر ملک ہے لیکن اپنی عوام دوست قیادت اور مضبوط پالیسیوں و اصلاحات کی بدولت آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے ۔چین کی ترقی میں عوام کی خوشحالی پر مبنی پالیسیاں اہم اساس ہیں اور اس سفر میں شہری اور دیہی علاقوں کی یکساں تعمیر و ترقی کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ چین غربت کے مکمل خاتمے سے ایک جامع معتدل خوشحال معاشرے کی تکمیل کر چکا ہے جو یقیناً اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل انسداد غربت کے ہدف کی تکمیل کی ایک اہم کڑی ثابت ہو گی۔

ابھی حال ہی میں چین نے سالانہ مرکزی دیہی ورک کانفرنس کے دوران 2022 میں دیہی ترقی کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے، ٹھوس اقدامات اور زراعت کو مستحکم کرنے اور دیہی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے عظیم کوششوں کا وعدہ کیا ہے۔کانفرنس میں زرعی امور، دیہی علاقوں اور کسانوں کی فلاح و بہبود کا مفصل جائزہ لیا گیا اور سال دو ہزار بائیس کے لیے دیہی خوشحالی سے متعلق منصوبہ بندی کی گئی۔چین کے صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ مستحکم دیہی و زرعی ترقی کو یقینی بنایا جائے۔انہوں نے خوارک کے تحفظ اور غربت کے خاتمے کی کامیابی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔ کانفرنس کے دوران مشترکہ خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی رہنمائی میں زراعت، دیہات اور کسانوں کی اعلیٰ و معیاری ترقی کو آگے بڑھانے،نیز قومی تحفظِ خوراک اور انسداد غربت کے ثمرات کو مزید مستحکم کرنے کی بنیاد پر دیہات کی جامع ترقی پر زور دیا گیا۔علاوہ ازیں خوراک کی پیداوار اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی،اہم زرعی ٹیکنالوجی کے معیار کو بلند کرنے، صنعتوں کے ذریعے دیہات کی ترقی اور کسانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا گیا۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ جدید زرعی اصولوں کی بدولت آج چین خوراک میں خودکفیل ہو چکا ہے جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔رواں برس چین کی اناج کی پیداوار 683 ارب کلو گرام کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ایک جانب اکثر ممالک میں زرعی رقبے کی جگہ کنکریٹ اور فولادی جنگل لے رہے ہیں تو دوسری جانب چین میں زرعی رقبے کو مسلسل وسعت مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ چین میں اناج کی پیداوار مسلسل سات سالوں سے 650 ارب کلو گرام سے متجاوز رہی ہے۔ آج چین میں قابل کاشت رقبہ 0.7 فیصد اضافے سے 117 ملین ہیکٹر تک پہنچ چکا ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں زراعت چین کی اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کی اہم قوت رہی ہے۔زراعت میں سرمایہ کاری کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہوا جس سے زرعی تجارت کو فروغ ملا اور ملک بھر میں ”ایگری۔فوڈ انڈسٹری” کی مضبوطی اور کاروباری مواقعوں کو بھرپور وسعت ملی۔اس ضمن میں چین جدت کے تحت اعلیٰ معیار کی زرعی ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بدولت کسانوں کو اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کرنےکے مواقع ملے ہیں اور اشیاء کی ترسیل میں بھی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس طرح شہری۔دیہی ڈیجیٹل خلا کو نمایاں حد تک کم کیا گیا ہے۔انٹرنیٹ نے دیہی علاقوں میں انسداد غربت کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے جبکہ دیہی باشندوں میں شعور اُجاگر کرنے اور کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی میں بھی معاونت ملی ہے۔

دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے چین کی ترجیحات کو پانچ اہم شعبہ جات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ان میں غربت کے خلاف جنگ میں فتح کے ثمرات کو برقرار رکھنا، دیہی علاقوں میں عوامی سہولیات اور بنیادی انفراسٹرکچر کی بہتری، اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی کی ضمانت،کسانوں کی آمدن میں اضافے کے لیے سہولیات کی دستیابی، دیہی علاقوں میں نچلی سطح پر گورننس کے نظام اور دیہی امور میں مضبوطی شامل ہیں۔دیہی اُمور کے حوالے سی عوامی سہولیات کی مسلسل بہتری کو ترجیح دی گئی ہے، پینے کے شفاف پانی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام کو مضبوط بنایا گیا ہے اور تعلیمی انفراسٹرکچر میں نمایاں حد تک بہتری لائی گئی ہے۔ شہری طرز پر دیہی علاقوں میں تعلیم کی فراہمی سے، دیہی ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

اسی طرح دیہی علاقوں میں طبی نگہداشت کے نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں اور دنیا نے حالیہ عرصے میں کووڈ۔19کی وبائی صورتحال میں بھی دیکھا کہ چین نے کس طرح عوام کے جانی تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں کی خصوصیات کی بنیاد پر مقامی صنعتوں کو ترقی دی گئی ہے اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں مثلاً ظروف سازی،دستکاری اور ثقافتی سرگرمیوں کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔جدید دیہی سیاحت کے فروغ سے شہریوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ بیرونی ممالک کا رخ کرنے کے بجائے اپنے مقامی علاقوں کا رخ کریں۔اس کے علاوہ دیہی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لیے دیہی قرضہ جات،ٹیکس مراعات،سبسڈیز اور دیگر بے شمار مالیاتی پالیسیاں تشکیل دی گئی ہیں۔شہری و دیہی ترقی کے انہی مؤثراقدامات کے باعث آج چین ایک خوشحال معاشرے کے قیام سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے اور ترقی کا یہ سفر رواں دواں ہے۔