جاتے سال کی بھیانک سیلفی

سن ۲۰۱۲ میں سری لنکا سے ایک سشص  روزگار کے لیے پاکسان آتا ہے اسے اس وقت نہیں پتا تھا کہ وہ اپنی بھیانک موت کے تعاقب مین پاکستان جا رہا ہے . اپنے بوڑھے والدین، بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر اپنے اچھے مستقبل کے لالچ میں وہ پاکستان آگیا.وہ بہت محنتی تھا ، دل لگا کر اپنا کام شروع ہوکردیا .کام کرنے کی لگن کی وجہ سے جلد ہی ترقی کر کے فیکٹری منیجر بن گیا۔

اس کی اتنی جلدی ترقی کرنے کی وجہ سے اس کے ساتھ کام کرنے والے کئی ورکر اس سے حسد کا شکار ہونے لگے مگر پریانتھا کمار اپنے کام سے کام رکھتا تھا کئی بار انھی ورکرز نے اس کے کام خراب کرنے کی بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے .اس کی ایک بہت اچھی عادت تھی اپنا کام پورے ٹائم تک کرتا کبھی پانچ منٹ پہلے بھی چھٹی کر کے نہ جاتا. یہی اصول وہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں پر بھی لاگو کرتا۔

اس وجہ سے بھی ورکرز اس سے خار کھاتے تھے۔ورکرز کام چوری کے بہانے تلاش کرتے رہتے کھانے کے ایک گھنٹے کے وقفے کو وہ اپنی فضول باتوں میں لگ کر ڈیڑھ گھنٹے کا کر لیتے اسی طرح ڈیوٹی آٹھ گھنٹے کی ہوتی تو کبھی گھنٹہ تو کبھی آدھا گھنٹہ پہلے چھٹی کر کے گھر چلے جاتے. پریانتھا کمار ہمیشہ انھیں تنبیہہ کرتا کہ وہ لوگ پورے ٹائم تک اپنا کام کیا کریں۔ورکرز اس کے دشمنی  بن گئے جب کہ پریانتھا کمار غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی بے حد ایمانداری سے اپنا کام کر رہا تھا ۔

فیکٹری مالکان بھی اس سے بہت خوش تھے۔فیکٹری کے ایک اور مینجر نے ورکرز کو اپنے ساتھ ملا کر پریانتھا کمار کے خلاف ایک سازش تیار کی کی اس کے قتل کی سازش اس پر توہین آمیز آیت اوراق پھاڑنے کے الزامات لگا کر اس پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ پریانتھا نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔پہلے تو اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ایک پیر کے سوا اس کے جسم کی ہر ہڈی ٹوٹ چکی تھی ریڑھ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اس کی پسلیوں پر اتنے وار کۓ گۓ تھے کہ اس کا معدہ اور جگر تک پھٹ گیا تھا۔

میرے اللہ یہ سب لکھتے ہوئے میرا اپنا دل پھٹ رہا ہے مگر ان ظآلموں کا دل ابھی بھرا نہیں تھا ۔زخموں سے چور پردیسی غیر مسلم ایماندار پریانتھا کمار کی سزا ابھی باقی تھی ان ظالموں نے زندہ جی ہاں اس کی سانسوں کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں تھی کہ ان اسلام کے علمبرداروں نے جن میں سے ذیادہ تر تو پانچ ٹائم کے نمازی تک نہ تھے اس کے جسم پر آگ لگا دی اُف میرے خدایا دل تھام لینا اب میں ذکر کروں گی اس سیلفی کا اس بھیانک سیلفی کا جو جلتے ہوئے پریانتھا کمار کے ساتھ وہاں موجود لوگوں نے لیں . آج تک جاتے سال کے ڈھلتے سورج کے ساتھ سیلفیاں تو بہت لوگوں نے لیں ہوں گی مگر جاتے سال میں جلتے ہوے پریانتھا کمار کی سیلفی شاید آنے والے کئی سال تک میرے دل اور دماغ سے اپنے بھیانک نقوش نہ مٹا سکے۔