جمعیت اساتذہ پاکستان

جمعیت اساتذہ پاکستان حقیقی معماروں کی بڑی تنظیم بن چکی ہے۔ پاکستان کے طول وعرض میں جمعیت اساتذہ کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا جاچکاہے۔اساتذہ کی فلاح وبہبود ،علم کی شمع روشن کرنے اور تعلیمی عمل کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی کردار سازی ،تربیت ،مسائل اورانکے حل کے لیے جمعیت اساتذہ پاکستان موثر طریقے کار کے تحت کام کررہی ہے ۔جمعیت اساتذہ پاکستان کا تنظیمی ڈھانچہ ارض پاک کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتسان اورآزاد کشمیرمیں کام کررہا ہے۔اس اعتبار سے یہ وطن عزیز کی سب سے بڑی منظم اساتذہ کی تنظیم ہے۔اس کی تشکیل میں مرکزیہ کے قائدین کے ساتھ ساتھ بڑا کردار پروفیسرعتیق اللہ عمر حفظہ اللہ کا ہے۔

پروفیسر عتیق اللہ عمر کی انتھک محنتوں ،کاوشوںاور اعلیٰ اخلاق کی بدولت یہ درخت تن آور ہوچکاہے۔شب وروز کی محنتیں ،اساتذہ سے رابطہ ،تنظیمی ڈھانچہ کی تشکیل نو، کام کی نوعیت،اساتذہ کے مسائل ،وفاق اور صوبوں میں تعلیم سے متعلق ہونے والی آئین سازی ،بنتے بدلتے قوانین پر عمیق نظر،نصابی اورغیر نصابی سرگرمیوں کا جائزہ ،نیشنل کریکلم کا نفاذ اوراساتذہ کے کردار پر مشاورت ،تعلیمی میدان میں طلباء کے لیے پیدا ہونے والے نت نئے چیلنجز ،طلباء واساتذہ میں ہم آہنگی کے لیے پروفیسر عتیق اللہ عمر صاحب اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔انہی مخلصاناں کاوشوں کا ثمر ہے کہ جمعیت اساتذہ پاکستان تعلیم عمل کے ہر سیکٹر میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اساتذہ کو انبیاء کا وارث قرار دیا ہے۔

استاد کے مقام ومرتبہ کو جاننا اور پہچاننابہت ضروری ہے، استاد بلاشبہ عظیم ہستی اور انسانیت کی محسن ذات ہے، استادکی بڑی شان اورعظمت ہے، دنیا نے چاہے استاد کی حقیقی قدر ومنزلت کا احساس کیا ہو یا نہ ہولیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی عظمت کو اجاگر کر دیا تھا، اس کے بلند مقام سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود رہبرشریعت محسنِ آدمیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے طبقہ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا کہ انما بعثت معلمامجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ،اک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا،اک دوسرے مقام پر فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں،فاتح خیبر دامادِ رسول سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے،حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں،

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو عبداللہ بن عباس نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ !آپ ہٹ جائیں اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا ،امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوتے تھے ،فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ ائمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں ،

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو،ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے اس پر ان کے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت !اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقینا وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جاتا رہے مجھے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ،خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعی ؒکے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا ،ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹااستاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے خلیفہ نے امام صاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں ،آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پرپانی ڈالے اوردوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کودھوئے،جب تک معاشرے میں ایسے لائق معزز والدین تھے اساتذہ کی قدروقیمت تھی بچے ذہین وفطین اور باادب ہوا کرتے تھے قلم کتاب کا تقدس اپنے عروج پر تھا۔

سرکاری اداروں کی ذبوں حالی ،بدانتظامی اورناقص کارکردگی نے نجی اداروں کی راہ ہموار کی ،نجی اداروں نے تعلیم کو بطور پیشہ اختیار کیا مار نہیں پیار کا کلچر متعارف کروایا ،ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ نجی اداروں کے مالکان پرنسپل حضرات بچے کی شکایت پر والدین کے سامنے استادکو پیش کرتے ہیں والدین بچوں کے سامنے استاد کوڈانٹتے ہیں ،ہم فیس ادا کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو پڑھایا جائے ڈانٹنے کا ہم نے آپ کو اختیار نہیں دیا ،والدین چاہتے ہیں بچہ جیسا چاہے رویہ اختیار کرے استاد بچے کا احترام کرے ، ماضی کاشاگر استاد کے احترام میں کھڑا ہوتا تھا اب جامعات کے دروازوں پر اساتذہ کھڑے ہوتے ہیں خوش آمدید کہنے کے لیے ،والدین اساتذہ کو اپنا غلام سمجھتے ہیں گستاخی سے پیش آتے ہیں،نجی اداروں نے انگریزی تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹ کر علم اورمعلم کی عظمت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے حیف صد حیف کہ ہمارے معاشرے نے استاد سے اُس کا اصل مقام چھین لیا ہے استاد کی قدر و منزلت اور جاہ و عزت وہ نہیں رہی جو قدیم زمانے میں تھی۔

آج ہمارے معاشرے کے تباہی کے گڑھے کے دہانے پر پہنچ جانے کی اصل وجہ استاد کی ناقدری ہے معلوم نہیں یہ بے راہ روی کیا کرشمہ دکھائے گی ،امام غزالی فرماتے ہیں حقیقی باپ نفس کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے مگر روحانی باپ تحت الثرٰی سے سدرۃُالمنتہٰی پر لے جاتا ہے،افسوس ہمارا معاشرہ اسلامی اصولوں کو بھلابیٹھا اہل مغرب نے اسلامی روایات کو اپنے تہذیب میں ضم کر لیا اہلِ مغرب کا ہم سے آگے نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیںاگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں وہاں عدالت میں استاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتاہے،آئیے ہم بھی مل کر اساتذہ کی قدرومنزلت کو پہچانے ریاست اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے ،استاد ہی قوم کا حقیقی معمار ہوتا ہے ہمیں اس معمار کا ادب اورعزت کرنی چاہیے نہیں تو مثل مشہور ہے: بااداب بامراد بے ادب بے مراد ۔

جمعیت اساتذہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین اورباصلاحیت لیڈرشپ سے نوازا ہے ۔جس کے ذمہ داران انتہائی مخلص اوراللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے درس وتدریس کے لیے بہترین ماحول ،نظام اور نسل نوکے اعلیٰ کردار سازی کے لیے ہر وقت متحرک ہیں ۔پروفیسر عتیق اللہ عمر صاحب کی قیادت میں تنظیم ہرمحاذ پر قائدانہ کردار ادا کررہی ہے۔پروفیسر عتیق اللہ عمر صاحب 2022میں جمعیت اساتذہ کے لیے کچھ بہت عمدہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تنظیم پاکستان کے تقریباتمام اضلاع میں اپنا نیٹ ورک بنا چکی ہے ۔پروفیسرعتیق اللہ عمرکی صاحب شبانہ روزمحنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے 2017میں اس تنظیم سازی کا دوبارہ آغاز ہوا،بندہ اس ڈھانچہ میں ضلع سیالکوٹ کا صدر منتخب ہوابعدازاں ناچیزکو تنظیم کا میڈیاکوارڈینیٹر مقرر کردیا گیا۔ یہ پروفیسر عتیق اللہ عمر صاحب کی شفقت ہے کہ مجھ ناچیز کو اس قابل سمجھا ۔یقینا میں بلاتامل کہہ سکتا ہوں اساتذہ کا یہ فورم اب پاکستان کا سب سے بڑا فورم بن چکاہے ۔ اس کی شمع ہرضلع ،تحصیل کے بعد یونین سطح پر آنا شروع ہوچکی ہے۔

پروفیسر عتیق اللہ عمر کا نظریہ لیڈرشپ بہت عمدہ ہے اورعمرانی ہے ۔موصوف تمام کارکنان کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل وفائل ہیں ،یہی خصوصیت انہیں کامیابی کے راستے پر گامزن کرتے جارہی ہے ۔میں بذات خود ان کی کارکردگی سے بہت زیادہ متاثر ہوں اللہ تعالیٰ موصوف کی کاوشوں اورمحنتوں کو بارآور کرے۔موصوف جدید عصری وفکری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اور تعلیم بشمول نصاب میں نظریہ پاکستان اورتحفظ وفروغ اردو کے لیے عمدہ رول اداکرنے کی خواہاں ہے ۔جمعیت اساتذہ عصرِجدید کی استعماری قوتیں کے شر سے نہ صرف اساتذہ کو بچاناچاہتی ہے بلکہ اساتذہ کو محبت وطن پاکستان بنانے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریہ سے روشناس کرانے کا عزم رکھتی ہے ۔ان تمام کاوشوں کے لیے پروفیسر عتیق اللہ صاحب اورانکی ٹیم کی کوششوں کو اک مرتبہ پھر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اللہ تعالیٰ جملہ تمام ذمہ داران کی مساعی کو قبول ومنظور فرمائے ۔

چندروز پہلے حضرت پروفیسر عتیق اللہ عمر حفظہ اللہ کے لخت جگر نے دنیا کی سب اعلیٰ ڈگر ی اوراعزاز اپنے نام کیا جس اعلیٰ اعزاز پر شیخ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔آپ کے بیٹے توصیف عمر نے قرآن کریم حفظ کرنے کا شرف حاصل کیا ۔اللہ تعالیٰ اس عظیم کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔فرزندارجمندکو نیک صالح عالم باعمل بنائے ۔