سندھ کی ثقافت یا دینی بغاوت

سندھ کی ثقافت یا مائیکل جیکسن کی پیدائش کا جشن سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ھے۔ مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ھے یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصوّر جہاد کی علامت ھے۔ کیا یہ دریائے سندھ کے کنارے آباد سندھ کے باشندوں کو معلوم ھے یا نہیں یہ ہی سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر یویو ہنی سنگھ کے فحش گانوں پر ڈانس کرنا سندھی ٹوپی اجرک کی توہین نہیں اگر اجرک کی شان کو بُلند کرنا ھے تو حال ہی میں اک وڈیرے کے ہاتھوں قتل ہونے والے ناظم جوکیو کی بیوہ کے سر پر رکھتے۔کیا جہاد کی علامت سمجھی جانے والی ٹوپی غریب کسان کا ِحق غبن اور تشدد کرنے وڈیرے کی شایانِ شان ہوسکتی ھے۔ مظلوم کو دبانے اور رشوت خوری کرنے والے کامریڈ کے سر کی زینت بن سکتی ھے۔

اگر ایسا ھے تو میں اِس ثقافت سے باغی ہوں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو چند سالوں کے بعد ہمارا حال بھی موہن جودڑو اور ہڑپہ کے عبرت ناک آثار قدیمہ میں ھوگا۔ فحش میلوں ٹھیلوں کا انعقاد کرکے سندھ کی غربت و افلاس زدہ عوام کے مذاق اڑانے کے مترادف ھے۔جن کے سر پر ٹوپی تو کیا سر چھپانے کیلئے چھت نہیں جن بہن بیٹیوں کے سر پر اجرک تو کیا تن ڈھکنے کو کپڑا نہیں جن کی نمائندگی کرنے والے مغربی فکرِ و تہذیب سے متاثر ھیں۔ یہ لوگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پڑھنے والے نہیں ہوسکتے۔ کیا شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سر زمین   بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا ِحق رکھتی ہے۔ایمان بیچنے پر اب سب تلے ہوئے ۔۔۔۔لیکن خریدو جو سندھ کی جامعات کے بھاؤ سے۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جب تم میں حیا باقی نہ رہے پھر جو چاہے کرتے پھرو۔

حیا نہیں زمانے کی آنکھ میں باقی
خُداکرے کہ جوانی تیری رہے بے دا غ
مذہب کا دم بھرتے ہیں
بے پردہ لڑکیوں کو کرتے ہیں
اسلام کا دعویٰ ایک طرف
یہ کافر ادائی ایک طرف