رضائی

“آج تو صفیہ تم جلدی آگئی ہو خیر تو ہے”۔سمینہ بیگم نے اپنی ملازمہ سے کہا۔”جی باجی سردیاں آگئیں ہیں دن چھوٹا ہو گیا ہے روز دیر ہو جاتی ہے گھر پہنچتے پہنچتے تو سوچا کہ اب گھر سے کام پر جلدی نکلوں اور شام تک سب کے گھروں سے کام نمٹا کر جلدی اپنے گھر کی راہ لوں”.صفیہ نے کہا۔۔بیگم سمینہ کے یہاں صفیہ 8 سال سے ملازمت کرتی وہ اپنی بوڑھی ماں پانچ بہن بھائی اور دو بچوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ رہی تھی۔وہ روز دوپہر تک ان کے گھر آتی اور آج سمینہ بیگم صفیہ کو صبح صبح دیکھ کے اپنی حیرانی نہ چھپا پائیں۔

“اچھا چلو اب جلدی آہی گئی ہو تو ایسا کرو کہ صحن اچھی طرح دھو کر جانا.سمینہ بیگم چاۓ پیتے ہوۓ بولیں۔”جی جی ٹھیک ہے جی باجی ایک گل کرنی سی”۔صفیہ نے جھاڑو اٹھاتے ہوۓ بات کرنے کی اجازت چاہی”۔”ہاں بولو کیا بات ہے” سمینہ بیگم بولیں”باجی بہت ٹھنڈ ہوگئ ہے رضائی کی ضرورت ہے اگر آپ کوئی بندوبست کردیں”.صفیہ بولی۔”لو جی میں نے پچھلے سال تو رضائی دی تھی کیا کرتی ہو ہر سال ہی رضائی کی ضرورت پیش آجاتی ہے”.سمینہ بیگم صفیہ کی بات سنتے ہی جھنجھلا کر بولیں۔
“امی آپ ان کو رضائی دلا دیں ایک یا دو رضائی ان کو کہاں پوری ہوتی ہوگی ماں ، ،پانچ بہن، بھائی اور دو بچے اسلۓ تو ان کو ضروریات بھی بڑھ جاتیں ہیں “.
سائرہ نے اپنی امی اور صفیہ کی گفتگو سنتے ہوۓ سمینہ بیگم کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔”بیٹا اسے اور باجیاں بھی تو تنخواہ کے علاوہ صدقہ و خیرات دیتی ہونگی نہ، پھر یہ عادت ہے ان کی تم بیکار میں پریشان ہوتی ہو اور ویسے بھی آج کل تمہارے ابو بھی پریشان ہیں اور سچ میں بہت مہنگائی ہوگئی ہے ان کی تنخواہ میں ہمارا خرچہ بھی پورا نہیں ہو پا رہا “۔سمینہ بیگم نے سائرہ کو کہا۔
” باجی، اللہ پاک آپ کو بہت دے میں نے آپ سے جو خواہش کی آپ نے پوری کی ہیں مگر باقی باجیاں مجھے صرف تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں دیتیں اور اسی لۓ تو آپ کا کام دل لگا کر کرتی ہوں اور خوب دعائیں دیتی ہوں اللہ سنے گا “.صفیہ ،سائرہ اور سمینہ بیگم کی باتیں سنتے ہوۓ بولی۔”اوہ پھر تو امی ہم صفیہ کو بازار سے رضائی دلا دیتے ہیں اللہ پاک ہمیں اس کا اجر دیں گے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
“کون ہے ایسا شخص جو اللہ جل شانہ کو قرض دے اچھی طرح قرض دینا،پھر اللہ تعالی اس کو بڑھا کر بہت زیادہ کردے( اور خرچ کرنے سے تنگی کا خوف نہ کرو)اللہ تعالی ہی تنگی اور فراغی کرتے ہیں(اسی کے قبضے میں ہے)اور اسی کی طرف مرنے بعد لوٹاۓ جاؤ گے”.(سورة البقرة آیت 245)

“ٹھیک ہے صفیہ ایک دو دن تک میں نے بازار جانا ہے تمہارے لۓ رضائی لے آؤں گی”.سمینہ بیگم سائرہ کی بات پر قائل ہوتے ہوۓ بولیں۔”اللہ پاک آپ کو بہت دے اللہ پاک آپ کو اس کا اجر دیں آپ کی بیٹی کے نصیب اچھے کرے آمین”
اتنا سننا تھا کہ صفیہ ،سمینہ بیگم اور سائرہ کو دعائیں دینے لگی۔”ہاں صفیہ ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے تم ہمیں دعاؤں میں یاد رکھا کرو”.سمینہ بیگم نے کہا۔”اچھا باجی صحن بھی دھل گیا اب میں جاؤں”.صفیہ نے اجازت چاہی۔۔۔

“ٹن ٹن”سائرہ ذرا دروازہ کھولنا” سمینہ بیگم کچن میں بریانی بناتے ہوئے بولیں۔کچھ ہی دیر گزری باہر بیل ہوئی۔” لو بھی مٹھائی کھاؤ میری ترقی ہوئی ہےباس نے تنخواہ بھی بڑھادی ہے گاڑی بھی آفس کی طرف سے ملی ہے اور خوب سہولیات بھی ملیں ہیں خوش ہوجاؤ”.سمینہ بیگم کے شوہر صادق صاحب اپنی ہی دھن میں بے تحاشہ خوش باہر سے ہی بولتے ہوۓ اندر آرہے تھے۔
” دیکھیں امی ایک جھوٹی سی نیکی سے کیسے غریب کی دعا ملی اور اللہ پاک راضی ہوگیا ابو کو آفس کی طرف سے ترقی کا عندیہ بھی مل گیا نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی”.سائرہ نے سمینہ بیگم کو کہا۔”بے شک اللہ پاک نیکیوں کو ضائع نہیں کرتا واقعی وہ بہت مہربان ہے”.سمینہ بیگم نے کہتے ہوئے مٹھائی لی اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور آئندہ ہمیشہ غریب مسکین کی مدد کرنے کا عہد کیا کہ سچ ہے
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔۔۔