’’دنیا کی ترقی اور بڑھتی بھوک ‘‘

17اکتوبر 1993ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس کا موٹو تھا ’’جب بھی کوئی انسان انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہو گا، تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔‘‘ اس کے بعد سے اس سلسلے میں کام کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ نے اس سال کا عنوان ’بھوک کا خاتمہ 2030 تک ممکن ہے‘ رکھا ۔غربت اور بھوک۔ دْنیا ان دو مسائل سے نجات پانے میں کل بھی ناکام تھی، آج بھی ناکام ہے۔

دیکھا جائے تو یہ دو الگ الگ مسائل نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رْخ ہیں۔ غربت ہی انسان کو بھوکا رہنے پر مجبور کرتی ہے اور بھوکا وہی رہتا ہے جو غریب ہو۔ کوئی انسان جان کر بھوکا نہیں رہتا ۔ ہر دور اور ہر ملک میں بھوک اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی ہے اور اس مسئلہ کا حل اہل سیاست کی اولین ترجیحات میں رہا ہے مگر چاند اور مریخ تک رسائی کے مشن تو کامیاب ہوجاتے ہیں، غربت اور بھوک سے نجات کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ اس سے اہل سیاست کی بے دلی ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے بھی یہی ہیں کہ یہ مسئلہ برقرار رہے جس سے وعدوں کی نیرنگیاں وجود میں آتی ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ مسئلہ ہر دور اور ہر ملک میں موجود رہا مگر گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ کورونا نے معیشت کے پیروں میں زنجیر ڈال دی، کئی ملکوں میں ہر چیز بند رہی، کرفیو جیسا ماحول رہا، لوگوں کی روزی روٹی چھن گئی، بڑے اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے روزگاری نے پر پھیلائے اور اہل اقتدار کو معاشی چیلنجوں کا سامنا ہوا۔ یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے۔

چنانچہ جو غربت اور بھوک کی جو کیفیت پہلے تھی، اب اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔ اقوام متحدہ کی ہنگر رپورٹ کے مطابق، بھوک وہ اصطلاح ہے جو اْن وقفوں کو ظاہر کرتی ہے جب انسانی آبادی کے بعض حصوں کو غذائی عدم سلامتی یا عدم محفوظیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جب، آبادی کے بعض حصے پورا پورا دن بھوکا رہتے ہیں۔ یا تو ان کے پاس غذا کے انتظام کیلئے پیسے نہیں ہوتے یا غذا تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ اس کو بھوک مانا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر نہ کھانے اور بھوکا رہنے کو بھوکا یا بھوک سے نبردآزما قرار نہیں دیا جاتا۔ ہنگر یا بھوک کو اور بھی کئی زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بھوک وہ ہے جس سے نشوونما میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی انسان کو روزانہ 800 کیلوریز سے کم پر گزارا کرنا پڑے۔ ایک اور تعریف یہ ہے کہ جب غذائی سلامتی نہ ہو۔ غذائی سلامتی کیا ہے۔ غذا تک رسائی اور اس کا استعمال۔ جب کوئی شخص بآسانی غذا حاصل کرسکتا ہے، اسے تغذیہ سے بھرپور غذا میسر آتی ہے اور جتنی مقدار درکار ہو اْتنی مقدار میں دستیاب ہو تو اسے غذائی سلامتی کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان کو یہ سلامتی میسر نہ ہو تو اسے بھوک سے نبرد آزما کہا جائیگا۔ کووڈ کے بعد کی صورتحال تو اور بھی زیادہ سنگین ہے۔

واضح رہے کہ بھوک کا چیلنج محض غذائی قلت کا نتیجہ نہیں بلکہ دْنیا کے کئی ملکوں میں شورش، بدامنی، گروہی تصادم، جنگ وغیرہ کے علاوہ قدرتی آفات بھی غذائی قلت کا سبب بنتی ہیں۔ اسی لئے غذا کی قلت کے ساتھ ساتھ غذا تک رسائی کی کیفیت کو بھی بھوک کا سبب قرار دیا جاتا ہے کہ غذا تو ہے مگر جس شخص یا خاندان کو بھوک کا سامنا ہے وہ اس غذا تک پہنچ نہیں پاتا۔ تاہم غربت اور اس کے نتیجے میں بھوک سے چھٹکارا پانے کیلئے جتنے سرمائے کی ضرورت ہے، حیرت انگیز طور پر دْنیا میں اس سے زیادہ سرمایہ موجود ہے اگرچہ دْنیا میں کئی مخیر حضرات بھی ہیں جو اپنی دولت کا کچھ حصہ پابندی سے رفاہی کاموں پر صرف کرتے ہیں مگر ہر شخص اپنی پسند سے یا اپنی ترجیحات کے مطابق رقم تقسیم کرتا ہے جس کی وجہ سے کسی ایک مسئلہ کے حل میںمکمل کامیابی کے بجائے بہت سے مسائل کا جزوی حل نکلتا ہے۔

’’سپر رِچ‘‘طبقے سے اضافی ٹیکسوں کے ذریعہ ارب پتیوں پر لازم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی دولت کا ’’مقرر کردہ فیصد ‘‘ (جو حکومتیں طے کریں) غربت کے خلاف جدوجہد کیلئے ادا کریں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں اہل زر کی مطلب براری کرتی ہیں، انہیں سہولت اور ٹیکسوں میں بھاری رعایت دیتی ہیں جبکہ ضرورت اس کے برخلاف کرنے کی ہے۔

اس وقت دنیا کی آبادی میں سے ہر پانچواں آدمی مثالی خوراک سے محروم ہے۔خوراک کی اس کمی کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا ہے کہ عالمی برادری نے اگلے2030تک دنیا کو بھو ک سے پاک کرنے یعنی ’زیروہنگر‘کا جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ حاصل کرپائے گی۔تازہ ترین ورلڈ ہنَگر انڈکس کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تقریبا ایک ارب انسانوں کو بھوک کے مسئلے کا سامنا ہے۔

گزشتہ برسوں میں عالمی سطح پر بھوک کا مسئلہ کچھ کم ہو گیا تھا مگر اب اس میں دوبارہ شدت آتی جا رہی ہے۔ 2019ء میں پوری دنیا میں تقریبا 690 ملین انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا لیکن گزشتہ برس یہ تعداد بڑھ کر 811 ملین ہو گئی۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ سو گیارہ ملین سے زائد انسانوں کو بھوک کا مسئلہ درپیش ہے، جن میں سے اکتالیس ملین کے لیے یہ صورت حال عنقریب بحرانی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

بھوک کی شرح سب سے زیادہ ایشیائی ممالک میں ہے، بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر رواں برس 14 واں ہے اور یہاں کی 21 کروڑ آبادی میں سے پانچ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں پیٹ بھرکر روٹی میسر نہیں۔پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے پانچ سال سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔جبکہ دنیا میں پہلے کی طرح آج بھی سب سے زیادہ بھوک افریقہ میں زیریں صحارا کے خطے کے ممالک اور جنوبی ایشیائی ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔ورلڈ ہَنگر ہیلپ کے اس سالانہ انڈکس کے مطابق دنیا میں پہلے کی طرح آج بھی سب سے زیادہ بھوک افریقہ میں زیریں صحارا کے خطے کے ممالک اور جنوبی ایشیائی ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔ان خطوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہاں انسانی آبادی بہت زیادہ ہے، اوسط فی کس سالانہ آمدنی کم ہے اور متاثرہ ترقی پذیر ریاستوں کو کئی طرح کے مسائل اور بحرانوں کا سامنا بھی ہے، جن سے بھوک کا مسئلہ اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔

حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی رسول کوفرات کے کنارے ایک کتے کے پیاسا مرنے پر محاسبے کی فکر ہو اور وہ ہر وقت اپنے رب سے ڈرتے ہوں تو ہمارے حکمران کیااللہ!منصف اور عادل کے دربار سے بچ جائیں گے،ہرگز نہیں۔روز محشر جب اللہ کہے گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھاناکیوں نہیں کھلایا،میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی کیوں نہیں پلایا؟اور پھر اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا پیاسا تھا اگر تم اسے کھاناکھلاتے،پانی پلاتے تو مجھے اپنے پاس پاتے اور جہاں حکمرانوں سے اس ضمن میں پوچھ گچھ ہوگی وہیں ہم سب کو بھی اس کے لیے تیار رہناچاہیے اور ہر گھر کم ازکم ایک بھوکے آدمی کے کھانے کابندوبست کرکے اپنے لیے آخرت میں سرخروی کاسامان تیارکرے۔تاکہ اس دنیا کے سب سے بڑے انسانی مسئلے سے نجات ملے اور ہماری دنیا جنت کانمونہ بن جائے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر چار سیکنڈ بعد ایک شخص بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے جبکہ ایک سال میں یہ تعداد 90 لاکھ تک جا پہنچتی ہے جو ملیریا، کینسر اور دیگر موذی امراض سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بھوک اور افلاس دنیا کی سب سے بڑی موذی بیماری بنی ہوئی ہے۔ جس کی حالت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے 1 ارب 20 کروڑ انسان صرف ایک ڈالر پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی ناقص معاشی و اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ جس سے دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو غربت و افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔