ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا

پندرہ جولائی 2012 کی تپتی دوپہر تھی اسلام آباد کا شاہ عبدالطیف بھٹائی آڈیوٹوریم کچھا کچھ بھرا ہوا تھا آج زیادہ سکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا اور کیوں نہ ہوتی وہ ملک کی اہم شخصیت تھے، کافی دیر سے انتظار کرنے کے بعد سوچا جاکر انتظامیہ سے ہی پوچھ لوں وہ کب تشریف لائیں گے (ٹوپی تو نہیں کرادی کہیں) لیکن ابھی کچھ سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ شور بلند ہوگیا اور میں جو اونگھنے لگی تھی فوراً سیدھی ہوکر بیٹھ گئی اور پھر  میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا، محسنِ پاکستان، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پُرجوش استقبال، لوگوں کی اکثریت کا شدتِ جذبات سے آبدیدہ ہوجانے کا منظر ناقابلِ فراموش رہے گا۔

 لوگوں کا اُمنڈتا ہوا ایک سمندر تھا جسے سکیورٹی اہلکار سنبھالنے کی کوشش کررہے تھے آڈیوٹوریم میں لوگ اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے تھے اور میں نے بھی اپنی نشست سے اُٹھ کر اپنے اُس ہیرو کو دیکھا جس نے پاکستان کے لئے بے تحاشا قربانیاں، اور ملک سے بے پایاں محبت کا ثبوت دیا۔ یہ ہمارے ملک کے عظیم ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایک جھلک تھی جسے دیکھنے کے لئے میں کراچی سے اسلام آباد آئی تھی۔

بھوپال میں 1936 میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1947کو خاندان سمیت ہجرت کرکے پاکستان آئے اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ میں 15 سال قیام کیا، واپس آکر 1974 میں ڈاکٹر اے کیو خان نے ذولفقارعلی بھٹو کی دعوت پر پاکستان میں جوہری پلانٹ پر کام شروع کیا۔ 1976 میں پاکستان میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی جسکا نام بعد میں تبدیل کرکے اے کیو خان لیبارٹری رکھ دیا گیا۔

 ڈاکٹر عبدالقدیر خان کافی عرصہ جوہری پروگرام کے سربراہ رہے، بلاشبہ یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ ہوتے تو پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نیوکلئیر پاور نہ ہوتا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسنِ پاکستان تھے اور عزت کے حق دار تھے، محسنِ پاکستان کو اس الزام میں اپنے ہی گھر میں نظرِ بند کردیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جوہری راز فروخت کیے تھے لیکن ڈاکٹر قدیر پوری پاکستانی قوم کے محسن تھے انھوں نے جوہری راز فروخت کرنے کا الزام اپنے سر لےکر ملک کو بچایا تھا یہ وہی الزام تھا جس نے انھیں قیدِ تنہائی کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیا۔ لہٰذا محسنِ پاکستان ایٹمی سائنسدان کو وہ قدر نہ ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ انھوں نے اپنے آخری ایام میں ایک خط لکھا تھا جس نے پاکستانی قوم کو شدت غم میں مبتلا کردیااور اسی گِلٹ میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 85 سال کی عمر میں خاموشی سے اس دنیا سے بھی چلے گئے۔

 ڈاکٹر صاحب قائداعظم کی طرح پاکستان کے محسن تھے لیکن پاکستان کے اس قابلِ فخر ہیرو کے جنازے میں نہ صدر، نہ وزیراعظم اور نہ ہی کسی سروسز چیف نے شرکت کی۔

ڈاکٹرصاحب قوم ہمیشہ آپکی مقروض رہے گی،رب کی بارگاہ میں ہمیں کٹہرے میں کھڑا نہ کیجئے گا۔ رب تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)