اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام

تعارف: قائد اعظم کی مادر علمی جامعہ سندھ مدرستہ الاسلام میں شعبہ کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم ہیں۔

موجودہ وقت میں اسلامی معاشرے میں عورت کی حیثیت کو اجا گر کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ معا شرہ کی ترقی اور خو شحالی کا رازبھی اس میں پوشیدہ ہے۔اسلام وہ مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس وقت مغربی دنیا کا نظریہ اسلام کی اصل بنیا دوں کو ہلا رہا ہے۔

مغرب کی رائے میں اسلام ایک تنگ نظر اور پستی کا شکار مذہب ہےجو خواتین کو انکے بنیادی حقوق سے دور کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔ اسلام کے دو بنیادی ذرائع قرآن و حدیث میں عورتوں کی حیثیت واضح طور پر بیان کر دی گئ ہے۔

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی کہتے ہیں کہ روزِاول سے اسلام نے عورت کے مذہبی،سماجی، معاشرتی،قانونی،آئینی، سیاسی اور انتظامی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا ہےبلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔ تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سےیکسر صرف نظر کرتے ہوئےاسے نظر اندازکردیتے ہیں۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں عورت بھی اسی طرح معاشرے کا اہم فرد قرار دی گئی ہے جس طرح معاشرے میں مرد اہمیت کا حامل ہے۔ کسی طرح سے بھی عورت کو کمتر جنس قرار نہیں دیا گیااور نہ ہی اسے مرد سے کم درجہ دیا گیا ہےیہ کہنا غلط نہیں ہو گاکہ اسلام عورت کو ہر لحاظ سے معاشرے میں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔اسلام سے قبل عورت کو اپنے خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔

انہیں نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا بلکہ انہیں اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی سے بھی دوررکھا جاتا تھا۔ بعض قبائل میں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دینے کا سلسلہ عام تھااور بالغ لڑکیوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔