ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا عالم کی موت پر اور جاہل کی زندگی پر آنسو بہاتی ہے۔ عالم کی ذات سے علم کی روشنی پھیلتی ہے اور اہل دنیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس کی زندگی ایک چراغ کی مانند ہوتی ہے جس سے مزید چراغ جلتے ہیں اور علم کی روشنی پھیلتی ہے عالم اگر محسن ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ موت ہر ذی روح کے لیے مقد ر ہے لہٰذا عالم کو بھی موت آنی ہے اس کی موت کے بعد اس کی ذات سے براہ راست تو علم کی ترسیل منقطع ہوجاتی ہے مگر اس کے روشن کیے ہوئے چراغوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری رہتاہے ۔جس سے دنیا فیض پاتی رہتی ہے ۔اور یہی اس کے لیے صدقہ جاریہ ہوتاہے ۔

کون کہہ سکتا تھا کہ27اپریل 1936 میں بھوپال میں پیدا ہونے والا عبدالقدیر خان ایک دن اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی سائنس دان بنے گا مگر یہ بات رب کائنات کے علم میں تھی کہ برصغیر کے مسلمان ایک اسلامی ریاست کی جدوجہد کررہے ہیں اس کی حفاظت کا بھی اس علیم و خبیر ذات نے بندوبست فرمادیا۔ 1957 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میٹرک پاس کیا اور اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کرکے آگئے۔ عبدالقدیر خان صاحب نے ڈی جے سائنس کالج سے انٹر کیا آپ کے پسندیدہ مضامین طبیعات اور ریاضی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1960 میں مادر علمی کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اس کے بعد آپ سکالر شپ پر جرمنی اعلٰ تعلیم کے لیے روانہ ہوئے علم کا یہ پیا سا پندرہ سال یورپ کےجن مختلف ممالک میں حصول علم کے لیے پھرتا رہا ان میں جرمنی کے شہر مغربی برلن، ہالینڈ اور بیلجئیم ہیں جہاں سے ڈاکٹریٹ آف سائنس اور ماسٹر آف سائنس کی ڈگریا ں حاصل کی اب ان کے سامنے دنیا میں شاندار مستقبل موجود تھا وہ چاہتے تو سب کچھ حاصل کرسکتے تھے مگر پاکستان کی محبت ان کے دل میں سمائی ہوئی تھی وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے میں حکومت پاکستان کی درخواست دسمبر 1974 میں اپنے وطن پاکستان آگئے اور یہاں انجینئر ریسرچ لیبارٹریز کے پاکسانی ایٹمی پرگرام کا حصّہ بن گئے ۔دن رات محنت کرکے تحقیقانی کام کو آگے بڑھایا مئی 1974 کے بھارتی ایٹمی دھماکو ں کے بعد پاکستان پر ایک برتری ہندوستان کو حاصل ہوگئی تھی یادرہے کہ ہندوستان کا ایٹمی پروگرام برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے تھا لیکن اس کے چند سالوں کے بعد 1998میں دوبارہ بھارت نے راجھستان کے ریگستانوں میں ایٹمی دھماکوں کے تجربات کئے ۔

ایسی صورت حال میں کہ جب خطرات کے بادل منڈلانےلگے طاقت کا توازن بگڑنے لگا ان پے درپے دھماکوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی اس کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے محسوس کیا اور اپنے وطن کو محفوظ بنانے کے لیے انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کردیں کہتے ہیں کہ نیت صاف منزل آسان ،ڈاکٹر صاحب نے محض آٹھ سال میں ڈیوائس تیار کرکے ساری دنیا کے سائنس دانوں کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا اور پھر وہ دن آیا جب پاکستان اپنے دشمن کے مقابلے میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا کا ساتوان اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک بن گیا اور نعرہ تکبری کے ساتھ28 مئی 1998 میں چاغی کے مقام پر بھارت کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھہ دھماکے کرکے اللہ کی کبریائی کو بلند کردیا اس دن کا نام ہی یوم تکبر رکھ دیا گیا۔

11ستمبر 2021 کو جنگ میں ایک کالم چھپا جا کا عنوان تھا کہ “نعمت الٰہی ” اس کالم کے کالم نگار محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے ۔ جس میں آپ نے اللہ کی نعمتوں کا تذکر ہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خوبصورت انداز میں سورہ کہف کی آیت گیارہ کا حوالہ دیا ہےاور لکھا ہے کہ انسان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے ۔اور پھر اس کے بعد آپ نے جھوٹی نبوت کا دعوے دار مسیلمہ کذاب کے ساتھ خلیفہ راشد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جہاد اور 1200 جید صحابہ کرام کی شہاد ت کا تذکرہ بھی کیاہے ۔اس مختصر سے کالم میں ڈاکٹر صاحب کے دینی تعلق کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں بظاہر ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ایٹمی سائنس دان تھے مگر ان کی شخصیت دینی رنگ میں رنگی ہوئ تھی آپ کو پاکستان کے ساتھ سچی محبت تھی آپکی محبت کی پشت پر آپ کے کردار کی دلیل موجود ہے۔

کہتے ہیں کہ محبت کی قیمت انسان کو چکانی پڑتی ہے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جرنل پرویز مشرف کی حکمرانی اوران کی امریکی غلامی اپنے نقطہ عروج پر تھی اورصدر پرویز مشرف انسانوں کی تجارت پانچ پانچ ہزار ڈالر میں امریکہ کے ساتھ کررہے تھے۔ وہ اپنے اس خدمت میں سب کو ہی پیچھے چھوڑ گئے اور ایک دن قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بھی امریکیوں کے حوالے کرکے اس کی قیمت بھی وصول کرلی یہ تو خیر بر سبیل تذکرہ بات آگئی۔ جرنل صاحب کے کارناموں میں یہ کارنامہ بھی ہے کہ جرنل صاحب نے امریکی غلامی کا حق نمک اس طرح ادا کیا کہ جب امریکہ نے پاکستان کے اس محسن پر الزام لگایا کہ انہوں نے شمالی کوریا اور ایران کو ایٹمی راز بیچے ہیں تو انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی صاحب نے ان کے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی مگر اس وقت سے لے کر محسن پاکستان اپنے انتقال تک اپنے گھر میں ہی قید رہے۔ بجائے یہ کہ عالمی عدالت میں یہ مقدمہ لڑا جاتا محسن پاکستان کو ہی مجرم بنا دیا گیا اور ان کواس خدمت اور احسان کی پاداش میں اپنے ہی گھر میں محصور کردیا اور ان کو اپنے ناکردہ جرم کی معافی بھی منگوائی گئی ۔یہ قیمت بھی ان کو پاکستان کی محبت میں چکا نی پڑی۔

ان کے ساتھ اس ناروا سلوک پر اس وقت پور ے پاکستان میں صرف جماعت اسلامی نے صدائے احتجاج بلند کی اور ایک روزہ ہڑتال کا اعلان کیا جس کو عوام میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی آج بھی سپریم کورٹ میں ان کی گھر میں نظر بندی اور نقل وحرکت کے خلاف مقدمہ دائر ہے ۔ان کے کالم بھی اسلام اور پاکستان کی محبت کے آئینہ دار ہیں وہ ایک مستقل کالم نگار تھے ۔ان کالموں کے زریعے وہ اپنی بات کو عوام میں پہنچاتے رہتے تھے ۔ان کی غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے ان کے بارے میں ٹھیک ہی کہا کہ وہ بظاہر تو ایک ایٹمی سائنس دان تھے مگر وہ ایک اللہ کے ولی تھے وہ الخدمت فاونڈیشن کے ساتھ ملکر یتیموں کی کفالت کیاکرتے تھے ۔انہوں نے اپنے مذکورہ کالم میں اپنی وفات سے قبل یہ بھی لکھا کہ “میرا رب مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا ۔یہ بات یقینا انہوں نے نبی رحمت ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں لکھی تھی کہ جس میں نبی مہربان ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ایک دوسرے کے قریب کرکے فرمایا تھا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ڈاکٹر صاحب ایک بے لوث محب وطن تھے انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کے لیے وقف کیا تھا مگر بقول شاعر.

وائے ناکامی متاع کاروں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج پاکستان اپنے محسن سے محروم ہوگیا مگر صدر صاحب کو فرصت نہ ملی کہ وہ اپنے دورے کو ملتوی کرکے واپس آتے اور اس محسن کی نماز جنازہ ادا کرلیتے شاید ان کو خبر بھی نہ ہوئی ہو کیونکہ پاکستان میں جب آٹے کی قلت پیدا ہوئی تو لوگوں نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے اس خبر سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے ا س کا علم نہیں ،مگر صرف صدر کاہی یہ حال نہیں ہے بلکہ چیف آف آرمی سٹاف بھی نہ آئے اور پاکستان میں موجود ہوتے ہوئے وزیر اعظم صاحب بھی اپنے شیرو اور ببلوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہے ۔ایک طرف حکمرانوں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف عوام کو بھی میڈیا نے سحر زدہ کررکھا ہے ان کو بھی شوبز کی دنیا کے لوگوں کا دنیا سے اٹھ جانا غم ناک کرتاہے۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسوں وہ خواب ہیں ہم