کشمیر کی وادی میں اردو ادب کا سرمایہ

“آزاد کشمیر میں اردو کالم نگاری کی روایت” میرے مقالے “پروفیسر محمد یعقوب شائق کی کالم نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ” کا ذیلی باب ہے۔ مجھے “آزاد کشمیر میں اردو کالم نگاری کی روایت” کے حوالے سے دشواری کا سامنا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس عنوان کو کیسے لکھوں اور کیسے اختتام تک پہنچاؤ؟ پھر کچھ سینئر اورساتھی طلبہ نے مشورہ دیا کہ سر فگارسے رابطہ کریں وہ اس حوالے سے بہترین انداز میں رہنمائی کریں گے۔

سر فگار سے پہلے میرا رابطہ کبھی نہ ہوا تھا تاہم ان کا نمبر حاصل کر کے انھیں میسیج کیا ۔انھوں نےکمال شفقت سے پہلے میرے مقالے کا خاکہ مانگا اور پھر مجھ سے کہا اگر ممکن ہو سکے تو ملاقات کر لیں تاکہ میں مکمل طور پر آپ تک اپنی بات پہنچا سکوں۔میں نے ہامی بھر لی اور اپنی دوست فرخندہ شریف سے رابطہ کیا۔ میری دوست (فرخندہ) کو بھی اپنے مقالے کے لیے ان سے رہنمائی کی ضرورت تھی۔ ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ سر فگار کو ان کے گھر (فرخندہ) کے گھر بلا لیتے ہیں۔ تقریباً تین بجے کے قریب سر وہاں تشریف لائے۔

پہلے پہل ان کو اسلام کیا تو اس وقت نہیں یقین تھا کہ سینئر کا ان کے بارے میں لگایا ہوا اندازہ صحیح ہے ۔ جب ان سے موضوع کے بارے میں گفتگو کا آغاز ہوا اور انھوں نے اپنے میٹھے لہجے میں موضوع کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئی کہ اتنی ذہین شخصیت جنھوں نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم دونوں کے نہ صرف مکمل موضوعات پر بات کی بل کہ اردو ادب کی دیگر اصناف کے بارے میں بھی مختصراً بتا ڈالا۔

با لخصوص تلفظ اور املا کی غلطیاں جو اردو میں عام ہیں مثلا (اعلیٰ) کا درست املا(اعلا)ہے اور (مصالحہ) نہیں(مسالا) ہے۔ اس طرح کئی دیگر الفاظ کا بھی بتایا اس کے ساتھ ساتھ درخواست کیسے لکھیں جس میں بڑے بڑے لوگ غلطیاں کرتے ہیں اس کو صحیح لکھنے کا طریقہ بتایا۔ سر سے ایک گھنٹے کی نشست میں اتنا سیکھا جتنا مکمل ایم اے کے دوران میں بھی نہ سیکھ پائے۔

سوالات پوچھنے کے دوران میں، میں نے دوبارہ اور repeat دو لفظ اکھٹے استعمال کیے تو مجھے ٹوکا کہ ان دونوں الفاظ کے معنی ایک ہی ہیں تو دو کیوں استعمال کر رہی ہیں۔ مجھے ان کا غلطی نکالنے کا انداز بھی بہت اچھا لگا ۔انھوں نے طنز نہیں کیا بلکہ اچھے سے سمجھایا۔

یہ تمام باتیں تو محض ان کی ذہانت کے کا پتا دیتی ہیں۔ اگر میں ان کے اخلاق کی بات کروں تو نہایت اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ ان میں غرور تکبر کا نام ونشان نہیں بنیادی طور پر یہی انسان کی کام یابی کی پہلی صفت ہوتی ہے جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کا گھر آنا اور بغیر ہمیں کچھ کہے کہ میں آپ کے لیے یہاں آیا ۔انھوں نے گفت گو کا آغاز کر دیا۔

جب میں نے گھر آنے کے بعد ان کے بارے میں تحقیق کی اور گوگل پر مختلف آرٹیکل کا مطالعہ کیا جو محض ان کی علمی اور ادبی خدمات کے حوالے سے بڑے بڑے لوگوں نے لکھے تھے پڑھ کر دنگ رہ گئی۔ان کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا تو پتا چلا انھوں نے کافی مشکل حالات کا سامنا کیا اور کچھ وقت کے لیے پڑھائی بھی موقوف دی پھر (بی اے) دس سال بعد علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے پرائی ویٹ کیا۔اس کے بعد کی تعلیم کا سفر جو اب تک جاری وساری ہے وہ ریگولر طالب علم کے طور پر نمل (نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ،اسلام آباد) جیسے بڑے ادارے سے حاصل کر رہے ہیں۔

میں نے سوچا تھا ان سے کی گئی ملاقت کو تحریری شکل میں لاؤں گی لیکن جب دیگر شخصیات کا ان کے بارے میں لکھا ہوا پڑھا تو سوچا کہ اردو ادب کی اس نام وَر شخصیت کے بارے میں کچھ نہ لکھ پاؤں گی اور اگر اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کی تو ان کی عزت میں کوئی حرف نہ آ جائے ۔ لیکن ان کی متاثر کن شخصیت کی وجہ سے ہی میں نے بالآخر ان کے بارے میں کچھ لکھنے کی سعی کی اور ان کے بارے میں لکھنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہو گا۔

میں نے واقعی ان کے بارے میں سینئر سے صرف تذکرے سن رکھے تھےاور کبھی ان سے ہم کلامی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی میں ان کے قد کاٹھ سے شناسا تھی۔ان سے ملاقات کر کے ان کی ذہانت سے بہت متاثر ہوئی ۔آخر میں صرف اتنا کہوں گی اللہ تعالیٰ سر فرہاد احمد فگار کو ہر میدان میں کام یابی سے ہم کنار کرے اور آپ کی ادبی ترقی میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ آئے۔(آمین)۔