معاشرہ بدلے ہم کیوں؟

فیصل آبادانٹر نیشل ایئر پورٹ جہاز لینڈ کرتے ہی جو سب سے پہلا خیال دل میں سمٹ کر آیاوہ تھا احساس تفاخر کہ ہم اپنے وطن میں قدم رنجہ فرما ہو چکے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ہمارے اندر کی پاکستانی روح بھی بیدار ہو چکی تھی جس کا اندازہ ہم نے اس بات سے لگا یا کہ ابھی ٹھیک سے جہاز رکنے بھی نہ پایا تھا کہ ہر کوئی اپنی سیٹ چھوڑ،سیٹ کے اوپر کیبنٹ سے سامان نکالنے کے لئے بے تاب ہوگیا۔ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ جہاز کا دروازہ کھلنے سے بیشتر ہی وہ چلتے جہاز سے چھلانگ لگا کر باہرچلا جائےاور تو اور وہ مسافر جو دوحہ سے میرے ساتھ والی نشست پر براجمان انتہائی وضع قطع اور نفیس گفتگو کرنے والا شخص بھی ایک پولیس مین کے کہنے پر جب لائن توڑے غیراخلاقی طور پر سب کو لائن میں چھوڑ کر جانے لگا تو نہ جانے کیوں میں نے اس کا بازو تھام کر ہمت جتا کر اسے مخاطب کیا،کہ حضور کیا ہم نے دوحہ ایئر پورٹ پر ایسا کیا؟وہاں تو ایک شرطہ جب ’’جھلا‘‘کہتا ہے تو سب کے سب شریف زادوں کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر محمود وایاز کی یاد تازہ کر دیتے ہیں تو پھر آپ یہاں اپنے ملک میں کیوں ایسا کر رہے ہیں کہ لائن میں کھڑے تمام لوگوں کو چھوڑ کر آپ غیر قانونی و غیر اخلاقیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔شخص کی سمجھ میں میری بات آگئی اور اپنی جگہ واپس چلا آیا،تاہم وہ پولیس مین مجھے گھورتے ہوئے پھر سے اسے بلانے لگا کہ جب میں کہہ رہا ہوں تو آپ کیوں نہیں آتے؟گویا وہ پولیس مین نہ ہوا کسی ملک کا وزیراعظم ہو۔

میری طرح آپ میں سے بھی بہت سے لوگوں کو ایسے بے شمار حالات و واقعات کا سامنا رہا ہوگا۔ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار میرے ساتھ انگلینڈ کی فلائٹ سے ایک شخص سفر فرما رہا تھا،بات بات پہ وہ ایک جملہ ضرور کہتا کہ انگلینڈ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔لیکن یونہی ہم ائیر پورٹ سے باہر نکلے اس نے سب سے پہلا جو کام کیا وہ ہاتھ میں پکڑی پانی کی خالی بوتل ایسے پھینکی جیسے کوئی ناجائز بچہ کچرے کے ڈھیر پر پھینکتا ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا تو میں مسکراتے چہرے سے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ــ’’کیا انگلینڈ میں ایسے ہوتا ہے؟‘‘۔ذرا شرمندہ سا ہوا اور بوتل اٹھا کر مناسب جگہ پر رکھ دی۔

میں نے جو بات پاکستان سے باہر رہتے ہوئے محسوس کی وہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ اس کے ملک کی تقدیر بدلے،پاکستان کا سیاسی و معاشی نظام مستحکم ہو،پاکستانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہو،ہم تقلید ِ دنیا اور تمثیلِ عالم ہوں۔لیکن بقول اقبال

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں پر بھی قانون کی اس قدر حکمرانی ہے کہ رات کے پچھلے پہر بھی جب کہ ٹریفک سگنل پر کوئی پولیس والا اپنے فرائض منصبی پر نہ بھی معمور ہو،وہاں بھی لوگ سرخ سگنل کو کراس کرنا جرم خیال کرتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے اور اگر ٹریفک جرمانہ ہو گیا تو کسی طور معافی ممکن نہیں ہوگی،ہم کبھی ساحل سمندر پر جائیں تو کھانا کھانے کے بعد کچرے کا لفافہ ہاتھ میں اٹھائے ڈرم کو ایسے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ تھر کے باسی پاکستان میں پانی کی تلاش۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بلدیہ کا کوئی افسر اگر دیکھ لے گا تو جرمانہ ادا کرنا پڑ جائے گا۔جبکہ اپنے ملک میں کچرے کے شاپر میں ڈال کر یوں دور سے دور پھینکاجاتا ہے جیسے کوئی اتھلیٹ ڈسک پھینک رہا ہو۔

اسی طرح جب ہم یورپ کی مثال دیتے ہیں تو اکثر کہتے ہیں کہ وہاں لوگ اخلاقیات کے دامن کو نہیں چھوڑتے،تعلیم وتربیت اعلی مقام پر جبکہ عوام الناس کی اخلاقی اقدار عروج پر نظر آتی ہے۔لوگ سرکاری دفاتر ،پبلک مقامات،میٹرو ،پارک،سینما ہالز وغیرہ میں انتہائی شائستگی سے لائن میں لگے اپنی اپنی باری کے منتظر رہتے ہیں۔ان سب کی وجوہات اور ممکنات کو اندازہ لگایا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے تین سو سال قبل اخلاقی گراوٹ کا شکار یورپ کیسے اپنے آپ کو سدھارنے میں کامیاب ہو گیا۔تو یقینا قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد سرفہرست ہوگا۔کیونکہ قانون کی پاسداری سے ہی لوگوں کی اخلاقی تربیت ممکن ہو پاتی ہے اور جن اقوام کا اخلاقی معیار اعلی رتبہ پر فائز ہو وہاں اقدارکا عروج اور ترقی کا حصول ممکن ہو جای اکرتا ہے۔لیکن ہم پاکستانی بہترین اخلاقی اقدار کے حامل اور اسلام کے سنہری اصول رکھنے کے باوجود اس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار کیوں ہیں؟یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ہم پاکستانی، اسلامی اقدار کے پاسبان اخلاقیات سے اس قدر دوری اختیار کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنی اخلاقیات کی مثالیں مغرب کے کلیسائوں سے تلاش کرنا پڑ رہی ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟وہ اس لئے کہ ہم نے برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔شائد مولانا روم سچ ہی کہتے تھے کہ لوگوں کے ہجوم سے انسان تلاش کر رہا ہوں۔یقین جانئے آج بھی ہمارے ارد گرد لوگوں کا اجتماع ہے ،انسانوں میں انسانیت نہیں۔اسی لئے ہمیں غلامی عجب نہیں لگتی۔وہ سیاسی غلامی ہو کہ معاشی،اخلاقی ہو کہ انسانوں کی۔غلام قوموں کے معیار اور اقدار بھی ان کی سوچ کے مطابق ہی ہو جایا کرتے ہیں۔اب یہ کیسے پتہ چلے کہ غلام کون ہیں اور آزاد کوں؟تو اس کے لئے ایک سادہ سا پیمانہ ہے کہ جس قوم میں شریف کو بے وقوف،مکار کو چالاک،قاتل کو بہادر اور اہل ثروت کو بڑا آدمی سمجھا جائے سمجھ جائیں کہ اس قوم نے غلامی کے طوق کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔لہذا یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ نظام تب بدلے گا جب ہم بدلیں گے۔لیکن سب کہتے ہیں کہ ہم کیوں بدلیں معاشرہ کیوں نہیں بدل جاتا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔