پردہ تو عزت و وقار دیتا ہے

ہمارا دین قرآن اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں زندگی کے سب اصول بتائیے گئے ہیں۔یوں تو ہر طرح کے موضوع پر مکمل علم عطا فرما دیا گیا۔لیکن آج کے دور میں بےحیائی اور عُریانی عام ہو رہی ہے۔آخر کیوں یہ ماجرا زیادہ عام ہو رہا ہے؟؟اس کی سب سے بڑی وجہ عورتوں کا بے پردہ ہونا ہے۔

جب عورت ہر کسی پر حسن کے جلوے بکھیرے گی تو بے حیائی ہی جنم لے گی۔ پتہ نہیں کیوں آج کی عورت پردے سے اتنا دور بھاگتی ہے۔حالانکہ اِس میں تو عورت کی عزت و وقار قائم رہتا ہے ایک طرف تو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل درآمد ہورہا ہوتا ہے اور دوسری طرف دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر کوئی ایسی عورت کی بہت قدر کرتا ہے۔ایسی عورت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

دوسری طرف ایسی عورت جو بے پردہ ہو لوگ اس کی بلکل بھی قدر نہیں کرتے۔بلکہ شک و شبہ میں پڑ کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے ۔یا پھر ویسے ہی اُن کی کوئی عزت نہیں رہتی ۔تو پھر کیوں نہ ہم لوگ حجاب کو اپنا کر دین اور دنیا دونوں محفوظ کریں۔

اپنی اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ پردے کے احکام واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن  سے بے حد رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔قرآنِ کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے واضح طور پر پردے کا حکم بھی نازل فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تعلیمات بھی دی گئی کے آخر پردہ کیوں کیا جائے۔اس کی ضرورت کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

“آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں” (سورۃ النور:31)

پھر  سورۃ االاحزاب کی ایک  آیت 53 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“اپنی اوڑھنیوں کو اپنی دنیا بنا لیں “

پھر اس کے علاوہ وہ مرد جن سے زینت چھپانے کی پابندی نہیں اُن کے بارے میں سورہ النور آیت 31  میں ناموں کی لسٹ سے بھی اللہ نے  واضع تعلیمات دے دی ہیں۔

یعنی ان سب تعلیمات کے جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ پردے کی اسلام میں بہت اہمیت ہے ۔اسلام  نے کس طرح کھول کھول کر تمام تعلیمات واضع فرمائی تا کہ اُن کی اُمت مسلمہ کو کسی قسم کی پریشانی لاحق نا ہو۔لیکن افسوس کے ہم لوگ عمل بہت کم کرتے ہیں ۔جب اللہ تعالٰی کی تعلیمات کی نافرمانی کی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی انسان کو ذلت و رسوائی کی پستیوں میں گرا دیتے ہیں ۔جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور کچھ نہ دکھائی دیتا ہے اور نا سمجھ عطا کرتا  ہے۔

درس قرآن کو اگر ہم نے نہ بُھلایا ہوتا

تو زمانے نے یہ زمانہ نہ دکھایا ہوتا

آج کا معاشرہ بہت سی برائیوں سے بھرا ہوا ہے ۔جس میں سے سب سے زیادہ اہم ترین مسئلہ عورت کا بے پردہ ہونا ہے۔جو اصل فساد کی جڑ ہے۔بہت سی برائیاں بے پردگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔

لیکن اس معاشرے میں ایسی خواتین اور بیٹیاں بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی اسلامی تعلیمات کو اپنا کر معاشرے میں اہم مقام بھی حاصل کیا ہے اور عزت و احترام کی نگاہ سے انہیں دیکھا جاتا ہے ۔میں ایسی بہنوں کو دل سے سلام کرتی ہوں۔ اللہ سب بہنوں کو اللہ کے حکموں کے مطابق شرعی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔

کیسے منافق لوگ ہیں ہم؟ کوئی لڑکی اگر اپنے رب کا حکم مان کر پردہ کر لے تو کسی طور اس کا اس حکم پر عمل کرنا accept نہیں کرتے، معاشرے میں اسکا survive کرنا مشکل بنا دیتے ہیں، اللہ کے اسی حکم پر طنز و مزاق کرتے ہیں اور اس حد تک کرتے ہیں کہ وہ گھٹنے ٹیک دیتی ہے (الا ما شاء اللہ) اور جو لڑکی یہ حکم نہ مانے، جو کھلے عام اللہ کی حدود سے نکلے، اس منافقانہ معاشرے کے مطابق تبرج الجاہلیہ کرے اسے بہترین کہتے ہیں، اسے ہی survive کرنے کا موقع دیتے ہیں، اسے آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔

پر جب اللہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر آڑ اللہ ہی کے حکم کو بنا لیتے ہیں، اور اسی حکم کے پیچھے خود کو چھپاتے ہیں کہ لڑکیوں کو پردہ کرنا چاہئے۔پردہ کرنے والی کو، تبرج الجاھلیہ کا کہا جاتا ہے اور تبرج الجاھلیہ کے اثرات بھگتنے کے بعد تبرج الجاہلیہ کرنے والی کو پردہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔یہ کیسے دوغلے معیار ہیں ہمارے؟

ہم کسی حال میں بھی خوش ہیں؟ کسی کو جینے کا حق بھی دیتے ہیں؟ ہم اپنی مرضیاں اپنی رائے ہی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کے قانون پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں؟ مغربی تہذیبوں کو ذوق و شوق سے اپناتے ہیں، اور پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ اسکے اثرات بھی نہ نظر آئیں معاشرے میں؟ہم اللہ کی حدود بھی کھلے عام توڑتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں ہم سلامت رہیں..؟

“یاد رکھیں جو اللہ کی حدود کی حفاظت کرتا ہے اللہ اسکی حفاظت کرتا ہے، جو اللہ کی حدود توڑتا ہے، وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ اندر باہر کا تضاد ہمارا کب ختم ہو گا؟ ہماری گفتگو اور عملی مظاہرہ کب یکساں ہوگا؟ آج ہر گناہ کا جواز ہے۔ یہ اس لئے ہوا۔۔۔ یا یہ اس لئے کیا گیا، دھوکہ کس کو دیتے ہیں اللہ کو یا اللہ کے بندوں کو؟

کیا یوم عظیم کا یقین نہیں ہے؟ کیا رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونے کا یقین نہیں ہے؟ کیا آخرت کی ذلت کا یقین نہیں ہے؟ کیا جنت جہنم کا یقین نہیں ہے؟ کیا پوچھے جانے کا یقین نہیں ہے؟

ہاں واقعی نہیں ہے تبھی بے خوف و خطر جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں، اور پھر ڈرتے بھی نہیں اللہ رب العالمین کے قہر سے اس زمین کے شق ہو جانے اور موت کے فرشتوں کا چہرے اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے سختی سے لے جانے سے۔