فضائے بدر پیدا کر

11 ستمبر 2001ء کو امریکا پر ہونے والے فضائی حملے کو جواز بنا کر امریکا کے اس وقت کے صدر بش نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر فضائی حملے کرنے کا حکم دیا اور افغانستان کو تورابورا کرنے کا اپنا مقصد بنا لیا۔ پھر امریکی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر 2001ء  میں داخل ہوئیں۔ جنہوں نے نہتے افغانیوں پر خوب ظلم و ستم ڈھایا۔ طالبان کی تلاش میں افغانی بستیاں در بستیاں تباہ کیں۔ نہ بچوں پر رحم کھایا نہ عورتوں کا لحاظ رکھا۔افغانی بچارے اپنی ہی سر زمین پر  مجبور و مقہور بن گئے۔

ان مغربی غاصبوں کا دست ظلم روکنے کے لیے طالبان ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ اپنے ایمان کی دولت سے ان کی جدید ٹیکنالوجی کا سامنا کیا۔ کسی بھی طرح کی سختی میں ہمت نہ ہاری۔ بالآخر 20 سال بعد اللہ تعالی نے انہیں فتح مبین سے نواز دیا اور یہ فتح بھی کیسی شاندار فتح ملی کہ امریکہ نے خود تو چند سال پہلے ہی ہمت ہار کر فوجی انخلاء شروع کر دیا تھا لیکن طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے انہوں نے تقریبا تین لاکھ افغانی فوج تیار کی۔ جس کو تیار کرنے میں امریکا، انڈیا اور ان کے اتحادی ممالک نے سو ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی۔ اکیلے امریکا نے ہی 80 ارب ڈالر خرچ کیا۔ ان کفار کی اسلام کے سپاہیوں کے خلاف  ساری چالیں اور تدبیریں اس وقت مکمل طور پر ناکام ہو گئی جب 15 اگست2021ء بروز اتوار ، طالبان نے کابل شہر کا گھیراؤ کر لیا اور فجر کی نماز کے فورا بعد کابل شہر میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ اس دن نہ صرف کابل بلکہ جلال آباد پر بھی اللہ تعالی نے فتح دی۔ یہ ایک ایسی شاندار  فتح تھی کہ ان شر پسندوں کی بنائی گئی فوج بالکل بھی کام نہ آئی۔ انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیئے اور دونوں شہر طالبان کے حوالے کردیئے۔ یوں طالبان کو اس دن  ایک گولی بھی چلائے بغیر فتح ملی۔ لیکن دوسری طرف طالبان نے بھی اس  فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے سامنے بطور شکرانہ عاجزی سے سجدہ ریز ہو گئے۔

 افغان فوج کے لیے معافی عام کا اعلان کردیا بلکہ معافی کا تحریری ثبوت بھی دینے کا اعلان کیا کہ اپنے اپنے شہروں میں جا کر امن سے رہیں۔ لیکن عوام کے دلوں میں تو ان فوجیوں کے خلاف غصہ تھا۔ کہ یہ لوگ اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں سے غداری کر کے دشمنوں کی کٹھ پتلی بنے تھے۔اسی غصہ  میں بعض جگہوں پر لوگوں نے فوجیوں پر پتھروں سے وار بھی کیا کیونکہ اس وقت ان کی پشت پناہی کرنے والی طاغوتی طاقتیں غائب ہو چکی ہیں اور آخر یہ اپنے لوگوں کے رحم و کرم پر ہی ہیں۔ اسی طرح مغرب کے کٹھ پتلی افغان ارباب اختیار بھی افغانستان سے بھاگ چکے ہیں کیونکہ غداروں کے مقدر میں انجام ہمیشہ ذلت و رسوائی ہی آتا ہے۔

الحمدللہ، بیس سال کی ایک طویل دردبھری جنگ کے بعد افغانستان، دوبارہ محب وطن اور محب اسلام طالبان کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ پورا عالم اسلام اس پر شاداں ہے سوائے چند شرپسند غداروں کے۔ ایک طرف امریکیوں کے پاس جدید اسلحہ، کٹھ پتلی افغان حکومت کا ساتھ، نیٹو ممالک کی مکمل پشت پناہی۔ دوسری طرف ان کی افواج سے کئی گنا کم طالبان جن کے پاس نہ کوئی فضائی سہولت اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی والا اسلحہ۔ دنیا ورطہ حیرت میں ہے لیکن ہمارے لیے اس میں کوئی حیرانگی نہیں۔

ہم تو اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایسے معجزات دیکھتے آ رہے ہیں جن کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا تھاجب صرف تین سو تیرہ لوگ جن میں سے صرف چند کے پاس مکمل اسلحہ تھا ، مد مقابل ایک ہزار ، بہادر اوراس وقت کے جدید اسلحے سے لیس،لیکن فتح مسلمانوں کے نصیب میں آئی کیونکہ اس وقت کے  مسلمانوں میں وہ تین صفات موجود تھیں جن کی موجودگی میں اللہ تعالی نے مسلمانوں سے اپنی نصرت اور فتح مبین کا وعدہ کیا ہے۔ بلکہ قرآن مجید  کی تعلیم کے مطابق اگر مسلمانوں کے اندر یہ صفات موجود ہیں تو ان کا ایک فرد ایک سو دشمن پر بھاری ہے۔ اگر وہ سو پر بھاری  نہیں تو ایک فرد دس افراد پر تو ضرور بھاری ہوگا۔ جتنا زیادہ تقوی، اتنی زیادہ طاقت۔ افغان طالبان نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی۔ اپنے اندر یہ تین صفات، ایمان، اتحاد اور جہاد، پیدا کیں۔ اللہ تعالی کی ناراضگی کے خوف کے  سوا ہر خوف اپنے دلوں سے نکال دیا۔ اپنا مددگار اللہ تعالی کی ذات کو بنایا۔اسی پر توکل وبھروسہ کیا۔ اپنا ایمان اللہ تعالی پر ایسا مضبوط رکھا جسے  طاغوت لرزاں نہ سکا۔ایون ریڈلی نامی مغربی صحافی خاتون نے بھی ان کے حسن و سلوک اور  حیا داری کی تعریف کی بلکہ یہ سب کچھ اس کے ایمان لانے کا سبب بھی بنا۔ جس نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام مریم رکھ لیا۔

 یہ ان طالبان کا حسن اخلاق تھا جن کی قید میں رہنے والی عورت آزادی کے بعد ان کی تعریفوں میں رطب اللسان تھی۔ دوسرا کام ان طالبان نے یہ کیا کہ اتحاد کا راستہ اپنایا۔ پورے ملک کے شیعہ، سنی، دیوبند،سب مسالک کے لوگوں کو صرف مسلمانی کے جھنڈے تلے جمع کیا۔ جب یہ یک جان بن گئے تو شہروں کے شہر طالبان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ان پر پھول نچھاور کرنے اور اپنے علاقے ان کے حوالے کرنے لگے۔  تیسرا راستہ جہاد کا ہے۔ جہاد مسلمان کی شان ہے۔ جب بھی، جہاں بھی مسلمان جہاد سے دور ہوئے ہیں کافروں نے  مسلمانوں کو دبوچ کر ان پر ظلم و ستم کر برپا کیا ہے۔ان کا یہ مشن ہے کہ مسلمانوں کو جہاد سے دور رکھ کر ان پر اپنی بربریت قائم رکھیں۔ انہیں مسلمانوں کی نماز، تسبیح، روزہ، حج، زکوۃ سے کوئی مسئلہ نہیں البتہ جہاد کے نام سے ہی واویلا شروع کر دیتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو جہاد سے دور رکھنے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں لیکن افغان طالبان نے مستقل مزاجی سے جہاد کا راستہ اپنائے رکھا۔ اللہ تعالی نے انہیں کامیابی سے ہمکنار بھی کیا۔ ماشاء اللہ۔

افغان طالبان کی فتح دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے لیے ایک زندہ و روشن مثال ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے فتح و  نصرت کا وعدہ ہر مسلمان کے لیے ہے لیکن وہ اپنے اندر مسلمانی تو پیدا کرے۔  اللہ تعالی کے حکم سے آج بھی 313 مسلمان ایک ہزار جدید اسلحہ سے لیس کافروں پر بھاری ہیں اگر وہ ایمان، اتحاد اور جہاد کی راہ اپنا لیں۔جس نصرت کی تصویر کشی مولانا ظفر علی خان نے اپنے شعر میں یوں کی ہے۔

فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی