ادیب سازشخصیت

ناقدری ایک بہت ہی بُری خصلت ہے چاہے وہ کسی بھی نعمت کی ہو، وہ نعمت اموال کی قبیل سے ہو یا املاک کی یا پھراشخاص کی، نتیجہ اسکامحرومی اورپیشمانی ہوتاہے، مگریہ ناقدری کاوائرس ہمارا قومی المیہ بن چکاہے۔

قومیں اپنے بڑوں کے تجربات سے اوران کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر ہی آگے بڑھاکرتی ہیں، جہاں کہیں کسی شعبے میں وہاں کے بڑے کوپہلے توبڑا سمجھا جاتاہو اور پھر اس سے سیکھنے کاجذبہ بھی بیدارہو تو وہ افراد اوروہ شعبہ ترقی کرتارہتاہے ورنہ وہ بڑے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ہی رخصت ہوجاتے ہیں اورکوئی ان کاوارث نہیں رہتا۔ نتیجہ وہ خیراوروہ خوبی مٹتی چلی جاتی ہے، یوں لوگ کئی عمدہ باتوں اورکمالات سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اس عظیم المیہ کی وجہ ایک طرف توہمہ دانی کافروغ پاتاجذبہ ہے اوردوسرا بڑے کوبڑاسمجھ کراس کے تجربات سے استفادہ نہ کرناہے، ہم اپنی ذات میں ہی سب کچھ ہیں اس لیے ہمیں اپنی محرومی کابھی اندازہ نہیں۔

اس افسوس وغم کے جذبات کامحرک دراصل ایک عظیم علمی اورادبی صلاحیتوں کی حامل درویش صفت شخصیت کا دنیاکی اس بھری محفل سے ناگہاں اٹھ جاناہے جن کی وفات سےصحافت وادب کی دنیامیں ایک خلاپیداہوگیا ہے جوشایدایک عرصہ تک پُرنہ ہوسکے۔

یہ شخصیت جناب اطہرہاشمی صاحب کی ہے جواُن عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جوایک دونہیں سینکڑوں ، ہزاروں لوگوں کوہنرمندبنانے کافن جانتے تھے اوراس کیلئے فکرمندبھی رہتے ہیں۔وہ اردو ادب کے شہسواروں میں سےتھے،اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، بہت سی ناموَرشخصیات کوبنانے،سکھانے اوربلندسے بلند مقام تک پہنچانے میں ان کی محنت اورتوجہ شامل رہی ہے۔

وہ بہت ہی بُردبار،خاموش مگرشگفتہ انسان تھے جوکہ انسان کے بڑاہونے کیلئے کافی ہے، ایسے لوگوں کی خاموشی بھی ایک آواز رکھتی ہے کئی قابلِ سماعت  آوازوں سے بہترہوتی ہے۔

ان کاعلمی وفنی کردارہویا شخصیت کی سادگی ہمدری کاجذبہ ہو یا جفاکشی کی عادت کام کی لگن ہوخیرا خواہی کی عادت سب کاسب قابلِ تعریف اورقابل تقلید ہے۔

ان کی جہاں اوربہت سی خصوصیات ہیں وہیں ایک خصوصیت خاموش جدوجہد بھی ہے، انہیں پیسے کی لالچ تھی نہ جاہ ومرتبہ کی چاہ،اسی لیے مجھ سمیت بہت سے بےخبروں کو ان کے مقامِ بلندکاصحیح اندازہ نہ ہوسکا لیکن دوسری طرف ان سے سیکھنے والوں اورفائدہ اٹھانے والوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، یہ لوگ بلاشبہ خوش قسمت ہیں۔

مثل مشہورہےکہ پیاسہ کنویں کے پاس جاتاہے، جن کے اندرطلب تھی اوروہ نعمت کی قدردانی کرناجانتےتھے آج وہ مطمئن اورخوش ہیں اورناقدروں کے پاس کفِ افسوف ملنے کےسوا کوئی چارہ نہیں، مگراس افسوس کامداوااپنی اِ س ناقدری کے مزاج کوبدل کرہوسکتاہے، اگرواقعی ایساہوجائے توپھرافسوس کی ضرورت نہیں کیونکہ پھرآپ بھی ان کے شاگرداوران کے تربیت یافتہ شمارہوجائیں گے، کیونکہ وہ جاتے جاتے ہمیں اوردوسروں کو بھی سکھاگئے!”قدردانی”انہوں نے اردو ادب کی عظیم خدمت انجام دی ہے اورصحافتی تحرورں میں بھی لکھت پڑھت کی درستگی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ، جیساکہ “خبرلیجئے زباں بگڑی”وغیرہ جیسے مضامین اس کی عکاسی کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بے شمارمضامین،رسائل وغیرہ لکھ کراپنی یادگارچھوڑگئےہیں، تاکہ ہم جیسے زبان وادب سے غفلت میں پڑے لوگ بیدارہوں تو کچھ تلافی ِ مافات کرسکیں۔یقیناً ان کی عظیم تحریری کاوشیں شائقینِ اردو کیلئے خصوصاً اوردیگرلوگوں کیلئے بالعموم گراں قدر سرمایہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کے خلوص ومحبت کوعام فرمائے اوران کی تحریروں سے مستفیدفرمائے اورآخرت میں ان کےدرجات بلند فرمائے۔ آمین۔