وہ سفر یاد آتا ہے

مدینۃ النبی میں گزارے ہوئے آٹھ دن کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل میری زندگی کی یادگار گھڑیوں میں سے ہیں جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آٹھ دنوں کے بعد ہمیں مکہ سے منسلک بستی عزیزہ میں رہائش دی گئی۔ عزیزہ جدیدطرزِ تعمیر پر ایک خوبصورت علاقہ جو مکہ سے تقریباً 45/40منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہاں خوبصورت، نت نئی، جدید اور پُرکشش اشیا کے بڑے بڑے شاپنگ مال حاجیوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ عزیزہ میں قیام کے دوران گرچہ مکہ اور کعبہ کے نظاروں سے محروم رہے جس کا بڑا قلق و افسوس رہا۔ ہمیں گروپ لیڈر نے بتایا کہ اب تقریباً تمام حجاج کا چالیس ایام میں سے کم از کم ایک ایک ہفتہ باری باری یہاں قیام رکھا جاتا ہے، شاید اس طرح مکہ شہر پر کچھ بوجھ کم ہوجاتا ہوگا۔ عزیزہ میں نماز، عبادات تو ہورہی تھیں لیکن وہ مزا نہ تھا۔ آخر جمعہ کے دن ہم چاروں نے حرم پاک میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ عزیزہ کے ہوٹل کے باہر ہی سے ہمیں آسانی سے ویگن (سواری) مل گئی جس نے فی مسافر دس ریال کرایہ لیا۔ سب بہت آسان لگ رہا تھا۔ ہم ساڑھے دس صبح حرم پاک پہنچے۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ لوگوں کی گنتی ناممکن۔ بس ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ ہم نے اعتکاف کی نیت کی۔ پہلے طواف کیا۔ رش کی وجہ سے طواف میں خاصا وقت لگا، مگر وہاں سے فارغ ہوکر مطاف و مسجد میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی تو نماز پڑھنے کی جگہ ملنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سعودی حکومت کی طرف سے انتہائی سخت انتظامات تھے لیکن ایک سوچ پھر بھی غالب تھی کہ دنیا میں سب سے بڑا اجتماع یہاں ہوتا ہے۔ اس کا انتظام انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو رب کا ہی کرشمہ ہے جو حج کے تمام مراحل بخیر و خوبی انجام پاتے ہیں۔ خیر ہم تینوں کو تو صفا و مروہ کے چھوٹے پل پر انڈونیشین خواتین نے جگہ دے دی، جبکہ عبداللہ وضو کرنے مسجد سے باہر گیا تو اس کو دوبارہ مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ مسجد میں مزید گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے باقی نمازیوں کے لیے صحن میں (باہر) انتظام ہوتا ہے۔ نہ صرف حرمِ مکہ بلکہ اس کے اطراف دور دور تک نمازی صفیں بنائے بیٹھے تھے۔ امام کعبہ کا خطبہ، لوگوں کا پُرجوش ازدحام، اللہ اکبر کی صدائیں… ایسے ایمان افروز اور ولولہ انگیز مناظر سے ہم اپنے ایمان میں تقویت محسوس کررہے تھے۔ بعد نمازِ جمعہ امام کعبہ کی دعا اور گریہ و زاری پر کوئی آنکھ ایسی نظر نہ آئی جو بارگاہِ الٰہی میں عجزو انکسار سے اشکبار نہ ہو۔ اگرچہ دعا عربی میں تھی لیکن مفہوم قابلِ فہم تھا… امتِ مسلمہ کی سربلندی، مسلمانوں کی یکجہتی، سلامتی، دنیا و آخرت کی بھلائی، دین پر استقامت سے قائم و دائم رہنے اور شفاعت النبیؐ کی طلب وغیرہ کی یہ تمام دعائیں اور آمین کی صدائیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ دعا وتلاوتِ قرآن پاک سے فارغ ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکلنا جیسے ناممکن لگا… بڑی مشکل سے عبداللہ سے رابطے کے بعد بن داؤد شاپنگ مال پر عبداللہ تک پہنچے۔ سڑک پر پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ ایک مرحلہ گزر گیا۔ دوسرا مرحلہ جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ فی مسافر سو ریال سے کم کرایہ کوئی سواری والا لینے پر راضی نہیں تھا، یعنی ہم چار بندوں کا کرایہ تقریباً (پاکستانی) دس ہزار روپے بنتا تھا۔ خاصی تگ و دو کے بعد ہم چاروں سے دو سو چالیس ریال کرایہ ویگن والا لینے پر راضی ہوا۔ صبح سے ہم لوگوں نے کچھ کھایا پیا نہ تھا، اب شام کے چھ بج رہے تھے۔ زم زم سے بھری ہماری بوتلیں بھی خالی ہوچکی تھیں۔ مغرب کی نماز ہم نے جاکر ہوٹل میں پڑھی۔ بھوک اور تھکن سے ہر ایک نڈھال تھا۔ اب احساس ہوا کہ یہی حج کی مشقت ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کو صبر اور برداشت کی تلقین کی کہ آگے اس سے زیادہ مشقت آسکتی ہے۔ اس کے بعد عزیزہ میں قیام کے باقی دنوں میں ہم نے حرم پاک جانے کا ارادہ منسوخ کردیا۔ عزیزہ میں بھی طعام وغیرہ کا انتظام گروپ کی طرف سے تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کچھ حجاج کرام بڑی بدنظمی کا مظاہرہ کررہے تھے۔

سات ذوالحجہ کو صبح ہی ہمیں کہا گیا کہ جو افراد بسوں کے ذریعے منیٰ جانا چاہتے ہیں وہ رات کو اپنے مختصر سامان کے ساتھ تیار رہیں، جبکہ پیدل جانے والے صبح روانہ ہوں گے۔ ہم چاروں نے مناسب یہی سمجھا کہ بسوں کے ذریعے جائیں۔ ہمارا مکتب 60 نیو منیٰ میں تھا جو عزیزہ سے زیادہ دور نہ تھا۔ منیٰ میں تقریباً دوسو خواتین پر مشتمل خیمہ تھا۔ جبکہ مردوں کے لیے علیحدہ خیمے مختصر تھے۔ خیموں میں بستر کا انتظام تھا جبکہ کھانے پینے اور چائے وغیرہ کا انتظام گروپ والوں کی طرف سے تھا۔ دوسرے دن صبح پیدل قافلہ دس بجے منیٰ پہنچ گیا۔ 8ذوالحجہ کا تمام دن فرض نمازوں، نفل، تلاوتِ قرآن پاک اور مختلف تسبیحات پڑھنے میں گزر گیا۔ موسم بھی معتدل بلکہ خوشگوار تھا۔ حجاج کرام دنیا و مافیہا سے بے خبر صرف اپنے رب کے حضور یکسوئی سے حاضر تھے۔ نہ فکرِ معاش، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گھر والوں کی فکر (ہر حاجی کے دل میں یہ بات بسی ہوئی تھی کہ ہم اللہ کے گھر حاضری کے لیے آئے ہیں اس لیے پیچھے ہمارے گھر والے اللہ کی حفاظت میں ہیں)۔ بس ایک روح پرور سماں تھا۔ ہر طرف سکوت تھا۔ سب خانہ بدوشوں کی طرح خیمہ زن۔ اس دنیا کی حقیقت کا احساس ہورہا تھا کہ ہم اس دنیا میں بس ایک خانہ بدوش کی حیثیت تو رکھتے ہیں۔ کچھ وقت بندہ بن کر اس دھرتی پر گزار کر اگلی منزل (آخر ت کی) کی طرف روانہ ہونا ہے۔8 تاریخ کو ہمیں بتایا گیا کہ صبح ناشتہ کے بعد میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہونا ہے، ہمارے ’60 مکتب‘ کی بسیں آئیں تو آپ سوار ہوتے جائیے گا جو میدان عرفات میں اپنے مخصوص مقام پر آپ کو اتاریں گی، جہاں گروپ منتظمین کی طرف آپ کو اپنے مخصوص خیموں میں پہنچا دیا جائے گا۔ انتطامیہ کی نصیحت کے مطابق تمام حجاج احرام کی حالت میں بسوں کے انتظار میں خیموں سے باہر منتظر کھڑے تھے۔ بسوں کی تعداد بہت کم تھی۔ بڑی مشکل سے ’60مکتب‘ کی ایک بس میں سوار ہونے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ بڑی نفسانفسی کا عالم تھا، شاید ایسا منظر روزِ محشر بھی ہو۔ راستے میں زیادہ تر حجاج کرام کو جو مختلف ممالک کے تھے، پیدل میدانِ عرفات کی طرف جاتے دیکھا۔ راستے میں مختلف کمپنیوں اور سعودی حکومت کی طرف سے کھانے پینے کی اشیاء مفت تقسیم کی جارہی تھیں جن پر حجاج کا بہت رش نظر آیا، لیکن ہم نے ان چیزوں کے حصول کے لیے وقت ضائع نہیں کیا اور اپنے خیموں میں پہنچ کر ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوگئے۔ ایک چیز جس کا یہاں خاص خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ اشیاء مفت ہونے کی وجہ سے حجاج بہت کچھ کھا پی لیتے ہیں جو تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس بات کی بڑی پابندی کی، اور سخت ضرورت کے تحت تھوڑا کھا پی لیا جس کی وجہ واش روم وغیرہ کی کم از کم ضرورت محسوس ہوئی اور اپنے آپ کو ہلکا پھلکا بھی محسوس کیا، اور کاہلی و سُستی سے بھی بچے رہے۔

میدانِ عرفات میں چاروں طرف خطبہ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ہمارے قافلے کے بقیہ افراد (پیدل سفر کرنے والے) عصر سے پہلے میدان عرفات پہنچ گئے۔ تمام حجاج نے ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں، بعد نماز عصر ہمارے پورے گروپ اور قافلے نے کھلے آسمان کے نیچے مولانا نسیم الدین کی رہنمائی میں دعائیں مانگیں۔ گریہ و زاری اور الھم آمین کی صدائیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ ایسے ایمان افروز اور روح پرور مناظر زندگی میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی اپنی خوش نصیبی پر خوشی سے رونا آرہا تھا تو کبھی اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے دل سے سسکیاں ابھر رہی تھیں۔ اس وقت یہ سب کچھ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ لرز رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ وہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان سطور کو گواہ بناکر اپنے رب سے التجا کررہی ہوں: اے ربِ کعبہ میرے حج کو حجِ مقبول و مبرور کا درجہ دے اور ہم سب کو وہاں بار بار جانے اور حج و عمرہ ادا کرنے کی توفیق عطا کر، ہماری زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر۔

9ذوالحجہ کا سورج غروب ہورہا تھا، زمین پر اندھیرے نے اپنا ڈیرہ جمانا شروع کردیا۔ اب ہماری اگلی منزل مزدلفہ تھی جہاں حجاج کو مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کرنی تھیں۔ شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں جمع کرنی تھیں اور تمام رات وقوف (قیام) کرنا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ہمارا قافلہ رواں ہوا۔ ہمارے ساتھ بھی 25/26حجاج تھے جو کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہاں آکر رنگ و نسل کا تمام فرق مٹ جاتا ہے، سبھی ایک مقصد کے لیے لبیک اللّٰھم لبیک کی صداؤں کے ساتھ رواں دواں تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ہمیں سواری مل جائے، لیکن ایسا ہونا ناممکن تھا، سو پیدل ہی سفر شروع کیا۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعد ہم مسجد نمرہ پہنچے۔ خطبہ کے بعد مسجد نمرہ بند ہوچکی تھی کیونکہ یہ مسجد سال میں صرف ایک مرتبہ 9ذوالحجہ کو کھولی جاتی ہے۔ مسجد نمرہ کا کچھ حصہ مزدلفہ اور کچھ میدانِ عرفات میں ہے۔ اس لیے ہمیں رات کو یہاں وقوف نہیں کرنا تھا بلکہ کچھ آگے جاکر کرنا تھا۔ ہم چند گھڑی سستانے کے لیے یہاں رکے۔ کچھ عرب حجاج ایک60۔65 سالہ خاتون کو ہمارے پاس لے کر آئے کہ یہ اپنے قافلے سے بچھڑ گئی ہیں، آپ اِن کی مدد کریں۔ وہ خاتون انڈین مسلمان تھیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ گزشتہ دو دن سے اپنے قافلے سے بچھڑی ہوئی ہیں۔ ان کی داستان سننے کے بعد عبداللہ اور ایک صاحب کو اُن کے ساتھ روانہ کیا گیا کہ انہیں ہندوستانی حاجی کیمپ (جو آدھے گھنٹے پہلے ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے) تک پہنچا کر آئیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد عبداللہ اور بقیہ ڈھائی سو افراد پر مشتمل ہمارا بقیہ قافلہ بھی مسجد نمرہ پہنچ گیا۔ لبیک اللّٰھم لبیک کی صداؤں میں تمام قافلے مزدلفہ کی طرف رواں دواں تھے۔ آسمان پر10ذوالحجہ کا چاند اپنی دودھیا روشنی دھرتی پر رواں دواں ان قافلوں پر بکھیر رہا تھا۔ حکومت کی طرف سے بھی ان علاقوں میں روشنی کا انتظام تھا۔ یہ صحرا جو عام دنوں میں ویران رہتے ہیں اس وقت یہاں چاروں طرف حجاج کرام کے قافلے ہی قافلے نظر آرہے تھے جو اللہ کی حمدو ثنا، قرآنی آیات و تلبیہ کی صداؤں سے اللہ کے فرماں بردار غلام ہونے کا دل و زبان سے اعتراف کررہے تھے۔ حدِّ نظر تک بڑا عجیب، دلچسپ، ولولہ انگیز اور ایمان افروز سماں تھا۔ کہیں کہیں مقامی لوگوں نے اشیائے خورونوش مثلاً کباب روٹی، پھلوں وغیرہ کے اسٹال لگائے ہوئے تھے جو مناسب قیمت پر فروخت کررہے تھے۔ اگرچہ حجاج کے چہروں پر تھکن کے آثار نمایاں تھے مگر بچے، بوڑھے، جوان حجاج کا جوش و ولولہ قابلِ تحسین تھا۔ مزدلفہ میں وقوف کے دوران حجاج کرام نے مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کیں، پھر ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآنِ پاک میں مصروف ہوگئے۔ یہیں سے حجاج نے شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں اکٹھی کیں۔ جن افراد کے پاس کھانے پینے کی اشیا تھیں انہوں نے مل کر آپس میں نوش کیں۔ یہاں کافی و چائے کے اسٹال بھی تھے۔ 3 سے 4 ریال میں فی کپ فروخت کیا جارہا تھا۔ چائے و کافی پینے کے بعد جسم میں ہمت و توانائی آئی۔ ایک دوسرے کو دیکھا تو اللہ کا فرمان یاد آیا… اللہ اپنے فرشتوں سے فخر سے کہتا ہے: ’’میرے بندوں کو دیکھو کہ میرے پاس دور دراز سے اس حالت میں آئے ہیں… پریشان حال ہیں، غبار آلود بدن ہیں، اور دھوپ میں جھلس رہے ہیں۔ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا (آمین)

تقریباً دو گھنٹے کے وقوف کے بعد ہمارا قافلہ آگے روانہ ہوا۔ جگہ جگہ حجاج کرام کہیں ریتیلی زمین پر، کہیں چٹانوں پر، کہیں کیچڑ پر چٹائیاں بچھائے بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے اپنے عالیشان گھروں میں آرام دہ بستروں پر لیٹتے اور بیٹھتے ہیں۔ بے شک بندے کی حقیقت یہی ہے کہ وہ نہ رات دیکھے نہ دن، نہ دھوپ نہ اندھیرا… بس اپنے مالک کا حکم بجالائے جس طرح آج حجاج کرام بجا لارہے تھے۔

ہماری اگلی منزل منیٰ تھی۔ راستے میں تہجد و فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پو پھٹتے ہی ہمارا قافلہ منیٰ پہنچ گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ بخیر وخوبی حج کا یہ رکن انجام پایا۔ تھکاوٹ سے جلد ہی سب کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ ڈیڑھ گھنٹے سونے کے بعد سب تازہ دم تھے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر جمرات کی طرف روانہ ہوئے۔ رش بہت زیادہ لیکن حوصلے سب کے جوان تھے۔ حکومت کی طرف جمرات تک پہنچنے کے لیے راستہ کور (چھت والا) تھا جس کی وجہ سے گرمی یا دھوپ کا احساس کم ہورہا تھا۔ جگہ جگہ پینے کے پانی کا بہترین انتظام اور صاف ستھرے واش روم نظر آئے۔ ہمارے قافلے والے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تمام مناسک انجام دے رہے تھے۔ اس وقت بھی ہمارے گروپ میں 25 افراد شامل تھے جو ایک دوسرے کا بہت زیادہ خیال رکھ رہے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ چاروں طرف سے تکبیر اور استغفار کی صدائیں دل میں تقویت اور ہمت پیدا کررہی تھیں۔ میرے پاس ایک رنگ برنگی چھتری تھی جسے ہم نے عبداللہ کے ہاتھ میں نشانی کے طور پر تھمادیا۔ اب عبداللہ گروپ میں سب سے آگے تھا، سب اس کو Follow کررہے تھے تاکہ گروپ کا کوئی بھی ساتھی رش میں علیحدہ نہ ہوپائے۔ ہم نے اتفاقِ رائے سے جمرات تک پہنچنے کے لیے سیکنڈ فلور کو منتخب کیا۔ سب سیڑھیوں کے ذریعے اوپر پہنچے۔ مقامی حکومت کی طرف سے بہت سخت لیکن مفید انتظامات تھے اس کے باوجود کہ انسانوں کا ازدحام تھا۔ تمام حجاج نہایت آرام سے منیٰ کا رکن ادا کرکے آگے کی طرف سے باہر نکل رہے تھے کیونکہ واپس آنے کے لیے اب علیحدہ راستوں کا انتظام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے حادثات سے حفاظت ہے۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد اپنے گروپ لیڈر کو اطلاع دی، انہوں نے ہماری قربانی کا نمبر ہم سب کو دے دیا کہ جیسے جیسے آپ لوگوں کی طرف سے قربانی ہوتی جائے گی ہم آپ کو مطلع کرتے جائیں گے۔

جمرات سے عزیزہ دور نہ تھا، اس لیے 50 ریال فی سواری سے پیدل سفر بہتر نظر آیا۔ آج عید کا پہلا دن تھا، یعنی دس ذوالحجہ… اس لیے تمام راستے رونق اور خوشیوں کا سماں نظر آیا۔ مختلف کمپنیوں کی طرف حجاج کرام کے لیے مفت اشیاء تقسیم کی جارہی تھیں۔ حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود کوئی شخص ان اشیاء سے محروم نظر نہ آیا، بلکہ مقامی دکانداروں کی طرف سے بھی جوس اور کھانے پینے کی اشیاء اور مٹھائیاں تقسیم کی جارہی تھیں۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ عرب نے ہم تینوں کو بلا کر الگ الگ مٹھائیوں کی بڑی بڑی طشتریاں تھمائیں۔ ان خوبصورت طشتریوں میں مختلف مٹھائیوں کو خوبصورتی سے سجاکر پیک کیا گیا تھا۔ ہوٹل کے قریب ہی پہنچے تھے کہ آسمان پر کالی گھٹاؤں نے آنکھ مچولی شروع کردی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں ہنستے بولتے ہمارا گروپ ہوٹل پہنچا۔ کیونکہ ہمارے طعام کا انتظام منیٰ میں تھا اس لیے لنچ میں ہمارے لیے اللہ نے من و سلویٰ کا انتظام کردیا۔ یہ مٹھائیاں اور چائے، اور اوپر آسمان سے بارانِ رحمت… سب نے مل کر کھایا اور مزا لیا۔ لذیذ چیز اور دیسی گھی سے بنی ان مٹھائیوں سے کیا ہوا یہ لنچ اور برکھا ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ہوٹل کی چوتھی منزل پر اپنے کمرے سے جو باہر کا منظر دیکھا تو سبحان اللہ… سورہ رحمن کی آیات کا ورد خودبخود زبان سے شروع ہو گیا۔ گروپ لیڈر کی طرف سے فون آنا شروع ہوگئے۔ جن کی قربانی ہوتی جارہی تھی انہیں مطلع کیا جارہا تھا۔ ہم سب بھی فون کے منتظر تھے۔ مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی فارغ ہوئے، ہمیں اطلاع ملی کہ آپ سب کی طرف سے بھی قربانی ہوگئی ہے۔ پھر تو ہم سب کی خوشی قابلِ دید تھی۔ اتنی خوشی تو بچپن میں بھی عید کے موقع پر نہیں ہوئی تھی۔ سب نے عید کے کپڑے نکالے۔ بالوں کی تقصیر اور غسل سے فارغ ہوکر ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ تین دن کے بعد ہم احرام کی پابندی سے باہر آئے تھے۔ سب بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ ہر ایک اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ اللہ کی نعمتوں پر (جو احرام کی وجہ سے حرام تھیں) شکر ادا کیا۔ ایک بات ہم نے یہ نوٹ کی کہ جن حجاج کو ان کی قربانی کی اطلاع دوپہر کو ملی تھی وہ بقیہ حاجیوں کی وجہ سے کھل کر خوشی کا اظہار نہیں کررہے تھے۔ اب وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ ہمارے بیس/ پچیس حجاج کے گروپ نے فیصلہ کیا کہ عید کے ان لمحوں کو یادگار بنانے کے لیے اکٹھے نکلتے ہیں۔ چنانچہ پہلے الطارج میں رات کا کھانا نوش فرمایا۔ سب بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ اپنوں سے کوسوں دور تھے لیکن اس دوری کا اس وقت بالکل احساس نہیں ہورہا تھا، بلکہ تمام حجاج کرام ہمیں اپنی ہی فیملی لگ رہے تھے۔ الطارج ہوٹل کی بھنی ہوئی مرغی نے عید کا مزا دوبالا کردیا۔ کھانے سے فارغ ہوکر طوافِ زیارت کی نیت کی۔ سب نے کہا کہ سعی بعد میں کریں گے، لیکن میں نے اور چند ساتھیوں نے طوافِ زیارت کے بعد سعی کا بھی ارادہ کیا۔ حرم پہنچے۔ رش بہت تھا، چاروں طرف سرہی سر اور شادماں چہرے نظر آرہے تھے۔ حجاج کرام کے چہروں پر تھکن کے باوجود خوشی کے جذبات نمایاں تھے۔ طوافِ زیارت کے بعد بڑی مشکل سے مقام ابراہیم کے پاس نفل ادا کرنے کی جگہ مل پائی۔ بارگاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعاؤں کا سلسلہ شروع ہوا۔ رشتہ داروں، دوستوں، ملک اور قوم اور امتِ مسلمہ کے لیے مانگی جانے والی دعاؤں کی صدائیں پورے مطاف میں سنی جارہی تھیں۔ جی بھر کر آب زم زم پیا تو جیسے جسم کو ایندھن مل گیا۔ ایک تمکنت کا احساس روح تک میں محسوس ہوا۔ دعا کے بعد صفاو مروہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں بھی رش کا وہی عالم تھا۔ حجاج کرام میں جوش و خروش اور چہروں پر شادابی اور نور کی جھلک نمایاں تھی۔ ہر ایک بارگاہِ الٰہی میں (اپنا حج مقبول و مبرور ہونے کی) گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اے رب العزت ہم خطا کار میلے کچیلے اعمال لیے تیرے در پر حاضر ہوئے ہیں، ہم تیری صفتِ رحمانیت سے پُرامید ہیں، تیرا ہی ہمیں آسرا ہے، ہمارے اس حج کو قبول فرما، اسے حجِ مقبول و مبرور بنا، اس حج کی سعادت سے ہمارے دلوں کو ہدایت کی روشنی سے منور کردے۔

طواف زیارت کے بعد ہمارے گروپ کے تمام حجاج وعدے کے مطابق باب فہد عبدالملک پر ایک دوسرے کے منتظر تھے۔ رات کے 12 بج رہے تھے، اگلا مرحلہ حرم پاک سے منیٰ کے خیموں تک پہنچنا تھا۔ پھر وہی منہ مانگے کرایوں کا سامنا کرنا پڑا۔ باوجود بھاری کرایہ ادا کرنے کے، بسوں نے منیٰ کے خیموں سے بہت دور اتارا۔ وہاں سے تقریباً 40 منٹ پیدل چلنے کے بعد منیٰ پہنچے۔ جیسے ہی منیٰ پہنچے، بادل گرج چمک کے ساتھ جی کھول کر برسے۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ خیمے اکھڑ جائیں گے۔ اس بارش میں اپنے خیموں کے باہر کھلے آسمان کے نیچے اپنے رب سے کی گئی سرگوشیاں یاد کرکے آج بھی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ میں ان لمحوں کے سحر میں کھوجاتی ہوں۔ آنکھیں موندے اُن لمحوں کو یاد کرتی ہوں تو خودبخود دل و روح میں سکون محسوس ہوتا ہے۔ اگلے دو دن یعنی 11اور 12ذوالحجہ کو رمی ادا کی۔ رش کے باوجود تمام مناسک بڑے سکون سے ادا ہوئے۔ یہ سب میرے رب کی قدرت ہے کہ ہر کام اپنے وقت پر ہورہا تھا۔ پاکستان سے روانہ ہوتے وقت یہ سب مشکل اور عجیب لگ رہا تھا، لیکن یہاں پہنچ کر جیسے کوئی ہمارا ہاتھ تھام کر یہ سب کروا رہا تھا، سبحان اللہ۔

چار دن کے بعد یہ خوشخبری سنائی گئی کہ صبح ناشتہ کے بعد 8 بجے مکہ روانگی ہے۔ یہ سن کر سب کے چہرے کھل گئے۔ مکہ میں اب ہماری رہائش خلیق ابراہیم پر پہلے والے ہوٹل سے تین یا چار منٹ کے فاصلے پر تھی۔ لیکن یہ ہوٹل پہلے والے ہوٹل سے زیادہ صاف ستھرا اور سہولتوں سے آراستہ تھا۔ اگرچہ مجھے سخت فلو نے آگھیرا تھا لیکن پہلے ہی دن ہم نے حرم پاک میں حاضری دی۔ میں تکلیف کی وجہ سے طوافِ کعبہ نہ کرسکی لیکن اگلے دن یہ سوچ کر ہمت بندھائی کہ پھر کبھی اس در پر حاضر ہونے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ سب ناشتہ کرکے حرم پاک جا چکے تھے۔ میں اللہ کا نام لے کر اٹھی، شاور لیا، ایک گلاس نیم گرم پانی میں شہد کے دو چمچے گھول کر درود پاک پڑھ کر پی گئی۔ ہوٹل سے باہر آئی، مکے کے روح پرور مناظر اور رونقیں سامنے تھیں۔ دل ہشاش بشاش ہوگیا۔ حرم پاک میں پہنچ کر اپنے رب سے مدد مانگی: اے رب کعبہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں مجھ ناتواں کو ہمت اور توفیق عطا کر، کنویں کے پاس پہنچا کر پیاسا نہ رکھ، میری پیاس بجھا۔ آپ یقین کریں میں جب طواف کررہی تھی مجھے اپنے قدم زمین پر نہیں بلکہ ہوا میں معلق محسوس ہورہے تھے جیسے کوئی مجھے ہوا میں اڑا رہا تھا۔ مجھے دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں تھا، بس آنکھوں سے ایک سیلاب رواں تھا، لب اللہ سے کلام کررہے تھے کہ اے اللہ تُو مجھ جیسے حقیر گناہ گار بندے کو بھی ایسے نوازتا ہے، اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے، اور ہم ناشکرے بندے بار بار غافل ہوجاتے ہیں، تیرے احسانات کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ میں قرآنی آیات و دعاؤں کا ورد کرتی جارہی تھی، حالانکہ لوگوں کے ازحام کا یہ حال تھا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، کیونکہ حجاج کرام کی واپسی شروع ہوگئی تھی۔ طوافِ وداع کے مناظر کو مجھ ناچیز کا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ چاروں طرف گریہ و زاری اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جس میں میرے دل سے اٹھنے والی سسکیاں ماند پڑرہی تھیں۔ طواف سے فارغ ہوکر باب عبدالعزیز کے پاس مطاف میں آکر سربسجود ہوگئی۔ نہ جانے کتنے پل گزر گئے، سجدے کی جگہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اٹھ کر آب زم زم سے منہ دھویا، ایک گلاس آب زم زم سر اور جسم پر بہایا تو اپنے آپ کو کافی ہلکا محسوس کیا۔ ظہر کی نماز کا وقت قریب تھا۔ حدود النساء میں ایک نیک دل خاتون نے اپنے پاس نماز کے لیے جگہ دی۔ ذکرِ الٰہی، تلاوتِ قرآن پاک اور نماز ظہر کے بعد گھڑی دیکھی… دوپہر کے تین بجے تھے۔ سوچا اللہ نے ہمت دی ہے عصر بھی پڑھتی جاؤں۔ اتنے میں عبداللہ (میرا بیٹا) کا فون آیا کہ آپ کہاں ہیں! آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ اس نے مجھے باب عبدالملک پر انتظار کرنے کو کہا۔ عبداللہ آیا تو ہم نے عصر کی نماز وہیں صحن میں ادا کی۔ چاروں طرف حجاج کرام کا ازدحام تھا۔ مسجد کے بلند و بالا مینار میرے سامنے تھے۔ میری پشت پر مکہ ٹاور اور بن داؤد (شاپنگ مال) تھا۔ نماز کے بعد ذکر الٰہی میں مصروف ہوگئی۔ عقیدت و احترام کے مناظر چاروں طرف نظر آرہے تھے۔ کھلے آسمان کے نیچے گرمی اور دھوپ کا کسی کو احساس ہی نہ تھا۔ ہر ایک ان لمحوں اور گھڑیوں کو دل و دماغ میں سموئے ذکر الٰہی میں مصروف تھا۔

30 نومبر کو طوافِ وداع کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ نماز عشاء کے بعد ہمارے گروپ کے تقریباً 200 حجاج کرام نے اجتماعی دعاؤں سے طواف کا آغاز گیا۔ سرور و تسکین کے دل موہ لینے والے لمحے، چاروں طرف اللہ اکبر کی صدائیں، قرآنی آیات کا ورد، نیلگوں آسمان پر ستاروں کا جھرمٹ، چاند کی ہلکی دودھیا روشنی اور حرم پاک کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنی نے جیسے چاروں طرف ماحول کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا۔ یہ اللہ کا گھر ہے جو اپنے رب کائنات کی وحدانیت و ربوبیت کی گواہی دے رہا تھا۔ چاروں طرف مختلف رنگ و نسل کے بندے، لیکن اس وقت سب کا مقصدِ حیات صرف اپنے رب کی خوشنودی کا حصول تھا۔ طوافِ کعبہ کے بعد سب نے نفل ادا کیے۔ وہ لمحے، وہ گھڑیاں، وہ سماں، وہ مناظر میری زندگی کا حاصل ہیں۔ طوافِ وداع کے ان لمحوں میں ہر حاجی ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ ایک طرف اپنوں سے ملنے کی خوشی اور مناسکِ حج کی تکمیل پر روح و جسم فرحت و تسکین پارہے تھے، دوسری جانب اللہ کے در سے دوری و جدائی دل کو تڑپا اور رلا رہی تھی۔

اس سفر حج میں قیام مکہ کے آخری دن کا ذکر ضرور کروں گی۔ 30 نومبر کو واپسی کے لیے پیکنگ مکمل ہوگئی۔ چیف ایگزیکٹو کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ 11 بجے صبح جدہ کے لیے بسیں روانہ ہوں گی۔ میں آخری بار (خدا نہ کرے کہ آخری بار ہو) حرم پاک میں طواف کرنے کے لیے عبداللہ کے ساتھ صبح 9 بجے پہنچی۔ اگرچہ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا لیکن میں بچوں کی طرح بضد کہ طواف ضرور کروں گی۔ عبداللہ اور میں نے باوجود بہت رش کے آدھے گھنٹے میں طواف مکمل کیا۔ طوافِ کعبہ کے بعد نفل ادا کیے۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھر والوں، خاندان، ملک اور اسلام کے لیے دعا مانگی۔ گھڑی دیکھی، ابھی دس بجے تھے۔ میں نے للچائی نظروں سے کعبہ کی طرف دیکھا۔ نور کا ایک سمندر تھا جو چاروں طرف بکھرا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم میکانکی انداز میں کعبہ کے گرد طواف میں مصروف تھا۔ ایک نظر اپنی ناتواں ہستی پر دوڑائی کہ رب نے مجھ ناچیز پر اپنے کرم کی بارش برسا دی، اب نہ جانے دوبارہ اس در پر آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ دل چاہا کہ دوڑ کر غلافِ کعبہ کو پکڑ کے رو رو کر رب العزت سے ایک مرتبہ پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگوں۔ عبداللہ سے اپنے دل کی بات کی۔ وہ بڑا فرماں بردار اور ایک صالح بیٹا ہے۔ اس نے گھڑی دیکھی، رش کے رواں سمندر پر ایک نظر دوڑائی اور صرف اتنا کہا کہ مما میں نہیں چاہتا کہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچے۔ میں نے کہا کہ یہ تو رب کی طرف سے ہوگا۔ میں نے اپنے رب سے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے مدد مانگی۔ ایک میکانکی انداز میں، مَیں چند منٹوں میں غلافِ کعبہ کو تھامے ہوئے دھاڑیں مارکر گریہ و زاری میں مصروف تھی۔ نہ جانے کتنے لمحے اور گزر جاتے، میں تو دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی، اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ آج 11بجے ہماری جدہ روانگی ہے۔ عبداللہ میرا 22 سالہ بیٹا خود اپنی سسکیوں پر قابو پانے میں ناکام تھا۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما۔ اب اس رش سے نکلنا ن ممکن، کیونکہ ہمارے چند قدم آگے حجرہ اسود نصب تھا جہاں لوگوں کا رش بلکہ بہتا سمندر تھا۔ اس ریلے سے صحیح سلامت باہر نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ میں جیسے ہی یہاں سے نکلنے کے لیے مڑی، لوگوں کا ریلا مجھے آگے کی طرف بہا کر لے جانے لگا۔ اس وقت عبداللہ کے مضبوط بازوئوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ زور سے چیخا ’’مما اپنے قدم مضبوطی سے جماکر یہیں کھڑی رہیں، جب تک میں نہ کہوں زمین سے پاؤں نہ اٹھائیے گا‘‘۔ پھر اس نے بسم اللہ کہہ کر طریق طریق (راستہ، راستہ) کی صدا لگائی۔ میری حالت تو غلافِ کعبہ کے لمس سے ابتر تھی، مگر میں نے حواسوں کو قابو میں رکھا۔ عبداللہ کی طریق طریق کی صداؤں سے لوگ خودبخود معجزاتی طور پر راستہ چھوڑ نے لگے۔ عبداللہ مجھے اپنے مضبوط بازوئوں کے حصار میں مجمع کو چیرتا باہر لے آیا۔ میں بابِ فتح کے پاس آکر زمین پر ڈھے گئی۔ اللہ کے آگے سربسجود اس سے سرگوشیاں کرتی رہی۔ عبداللہ نے آب زم زم لے کر مجھے پلایا۔ چند لمحوں بعد جب میرے ہوش بحال ہوئے تو رو رو کر خدا سے اس کی تمام نعمتوں کا شکر ادا کرنے لگی کہ اے رب العزت یہ بچہ عبداللہ جو کل تک میری گود میں اپنی ایک ایک ضرورت کے لیے اپنی ماں کا محتاج تھا، آج یہ تیری کرم نوازی ہے کہ تُو نے اسے میرا سہارا بنایا۔ میں نے عبداللہ کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ بارگاہِ الٰہی میں جھولی پھیلائے اس کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی کہ یارب اسے زندگی اور آخرت کی بھلائیوں سے نواز۔ اسے تُو نے میرے لیے وسیلہ بنایا، اس کی اولاد کو اس کے لیے وسیلہ بنانا۔ میری گناہ گار آنکھیں مسلسل اپنے رب کے حضور تشکر کا نذرانہ پیش کررہی تھیں جس نے مجھے لا تعداد نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا۔ میں نے مڑتے مڑتے کعبہ پر ایک حسرت بھری نظر ڈالی اور دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھ گناہ گار اور تمام مسلمانوں کو یہاں بار بار حاضری کا شرف عطا کر۔

ہوٹل پہنچے تو بسیں روانگی کے لیے تیار تھیں۔ جدہ پہنچ کر وہی صبر آزما لمحات تھے جن سے گزر کر، رات 1:30 بجے امیگریشن کے مراحل سے فارغ ہوکر جہاز میں سوار ہوئے۔ حسبِ معمول جہاز تاخیر سے روانہ ہوا۔ صبح کراچی کی سرزمین پر جہاز نے لینڈ کیا۔ تمام مراحل سے گزرتے ہوئے صبح 10بجے حج ٹرمینل سے باہر آئے تو تمام عزیز و اقارب استقبال کے لیے موجود تھے۔

ان 45دنوں کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل میرے دل و دماغ پہ نقش ہے۔ جس طرح دن گزرتے جارہے ہیں یہ نقش اور زیادہ گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ وہ کعبہ کی تجلیاں، نور کی بارش، گریہ و زاری، اللہ کی طرف سے ہر منزل پر آسانی اور مدد… کس کس بات کا تذکرہ کروں! جو دوائیاں اپنی تکلیف کی وجہ سے لے کر گئی وہ استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ یہ میرے رب کا کرم ہے، اس کی نوازش ہے جس نے مجھ گناہ گار کو اتنی بڑی سعادت نصیب کی۔ خدا ہم سب کے حج کو حج مبرور کا درجہ عطا کرے اور باقی تمام زندگی اپنے احکامات اور سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)