اپنی اصل کو پہچانیں

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے لیکن افسوس اسی نظریے کاذرائع ابلاغ کے ذریعے مذاق بنایا جاتا ہےملالہ نے نکاح جیسے احکام کا مذاق بنایاحسن نثارنے پردے کا مذاق بنایا تمام چینلز ایسے  تصور حیات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ اسلامی تصور حیات کی ضد ہےنظریاتی جنگ شروع ہو چکی ہے اذہان کو قابو کرنے کی جنگ شروع ہوگئی ہمیں اپنے نظریے کو بچانا ہوگاآج کل کے میڈیا نے انسان کو مال کمانے کا مشن دے کر اور راتوں رات مال کمانے کے لئےیوٹیوب ٹک ٹوکرز  ویڈیوز کے ذریعے اوچھی حرکتیں کرکے مشہور ہونے کی دوڑ میں شامل کر دیا ہے اچھائی اور برائی کی تمیز سے بالاتر ہوکر شہرت کی دوڑ میں سر پر بھاگ رہے ہیں افسوس ذرائع ابلاغ نےقوم کو غیرسنجیدگی کی طرف دکھیل دیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوششش کی جا رہی ہے مختلف ٹاک شوزکے ذریعے کہ ہر طرف سے شر ہی شرپھیلا ہوا ہے ڈرامے اس لحاظ سے صفحہ اول میں شامل ہیں جہاں طلاق لینا۔گھرسے بھاگنا۔دھوکہ دینا۔بے وفاٸی کرنا۔قتل کرنا اور سازشیں کرنا ایک عام سی بات کر کے دکھاٸی جاتی ہے یہ ہماری نظریے کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے جس میں مختلف این جی اوز بھی شامل ہے اس نظریے کی بقا کے لیے ہمیں ہر پلیٹ فارم میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے قرآن و حدیث کی تعلیم خودبھی حاصل کرنے کی ضرورت اور اپنے بچوں کو بھی دینی تعلیم دلوانے کی اشد ضرورت ہے اس نظریے کی اہمیت کوباور کرانے کے لیے اپنی تاریخ کو دوبارہ یاد کرنا ہو گا اپنا رشتہ اپنی جڑوں سے جوڑنا ہوگا اصل قیمتی چیز اپنا ایمان ہے جو کامل ہوتا ہے تب ھی وہ کامیاب ہوتا ہے ورنہ دنیا کی شہرت کسی کام کی نہیں جب ایمان جیسی چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ہمیں اپنے دن شام رات ہر گھڑی اپنے ایمان کی نگہداشت کرنی ہوگی کیونکہ میڈیا کے اس پر فتن دور میں ہمیں ہر لمحہ اپنا ایمان بچانا ہے ایمان بچے گا تو نظریہ بھی بچے گاحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مفہوم حدیث ہے کہ انسان صبح مسلمان ہوگاشام کو کافر ہوجائے گایہ شام کو مسلمان ہوگاصبح کافر ہو جائے گا آج کے دور میں ابلاغ عامہ اتنا تیز رفتار ہوگیا ہے کہ انسان کااپنے ایمان کو بچانا مشکل ترین امر ہے آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب اسلام اجنبی ہو جائے گا اور دین پر عمل کرناایسے ہو جائے گا جیسےجلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں پکڑ لیا ہو دین کی بات کرنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ اپنے مفاد کی بات تو نہیں کر رہا بے اعتمادی کی فضا ابلاغ عامہ کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے رشتوں میں بھی خلوص کے بجائےمال واسباب کو دیکھا جاتا ہے پیسے کی اس دوڑ میں ہم نہ صرف خود مصروف ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس ریس میں شامل کرنے کے لئے تیار کر رہے ہیں جس شعبے میں زیادہ پیسہ ہو اسی میں بچوں کو ڈالنے کی سر توڑ کوشش کر تے ہیں -بچوں کے دین و اخلاق کی فکر کے بجاۓ انکو پیسے بنانے کی مشین بنانے کے چکر وں میں ہے زندگی کا نظریہ بدل کر مادیت پرستی بن گیا ہے برانڈ کے پیچھے بھاگنے والے لوگ کے نزیک نظریے کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانے کے لیےاس شعر کی مصداق زندگی بسر کرو-

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے

خاک ہوجاؤ گے،افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے