گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف کی تعلیم سے روگردانی کرتی ہے اور دوسروں کی تہذیب سے متاثر ہوکر ان کی باتوں پر سر تسلیم خم کردیتی ہے اس کا حال ہمیشہ اس ہی کوّے جیسا ہوتا ہے جو ہنس کی چال چل کر اپنی چال بھی بھول بیٹھتا ہے۔ ہماری قوم کی مثال بھی اس ہی کوّے جیسی ہوگئی ہے جو مغربی تہذیب سے بے تحاشہ متاثر ہو کر ان کے عقائد اور طرزِ زندگی اپنی زندگی میں شامل کرتی جارہی ہے اگر  یہی روش جاری رہی تواس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے سالوں میں ہماری قوم کا مستقبل تاریک ہوگا۔ جس میں دینِ اسلام صرف برائے نام ہی رہ جائے گا۔ دوسری قوموں کی تقلید کے نتیجے میں پروان چڑھی پاکستانی نوجوان نسل پر بدترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن میں سب سے اہم برائی خاندانی نظام کا بگاڑ ہے اور اس بگاڑ کی واضح نشانی ملک میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ طلاق دینِ اسلام میں شادی ختم کرنے کا عمل ہے جس میں مرد باہمی نااتفاقی کی بنیاد پر اپنی زوجہ کو شادی کے رشتے سے آزاد کر دیتا ہے جبکہ اگر علیحدگی کا فیصلہ عورت کی طرف سے ہو تو یہ خلع کہلاتا ہے۔یوں تو اسلام ہر مرد اور عورت کو اس کا حق دیتا ہے کہ اگر وہ  ایک دوسرے سے خوش نہ ہوں تو شادی ختم کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی ضروری ہے کہ پہلے شادی چلانے کی بھرپور کوشش کی جائے پھر بھی بات نہ سنبھل پائے تو یہ فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ طلاق کو ابغض المباحات یعنی جائز چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز قرار دیا گیا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ حلال چیزوں میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے۔ جومذہب طلاق کے عمل کو اس قدر برا سمجھتا ہے تو اس کے نام پر بننے والے ملک میں ایسے ناپسندیدہ عمل کی شرح میں اضافہ حیران کُن ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں میں طلاق کی شرح میں ۶۰ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۷۰ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح ۱۳ فیصد تھی یعنی ہر ۱۰۰ میں سے ۱۳ شادیوں میں طلاق کا تناسب تھا۔ ۲۰۲۰ کی رپورٹ کے مطابق دیکھا گیا ہے ۲۰۱۹ کے مقابلے میں ۲۰۲۰ کے دوران خواتین کی جانب سے گھریلو مسائل کے باعث شوہر سے خلع کے کیسز دائر کرنے میں ۷۲۲ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہمارے ملک میں طلاق اور خلع کی شرح میں اضافہ کی کئی وجوہات ہیں۔ جس کی ابتداء تب سے ہوئی جب ہمارے ملک کے نوجوان تعلیم یا نوکری کے سلسلے میں بیرونِ ملک گئے اور وہاں کے کلچر سے متاثر ہوکر ان کی رسمیں، اطوار اور عقائد کو اختیار کرنے لگے مثال کے طور پر یورپین ممالک میں نکاح کا تصور نہیں یعنی شادی کے بغیر ہی دونوں فریقین ساتھ رہتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو جب تک صحیح سے سمجھ نہ لیں شادی نہیں کریں گے۔ اس دوران وہ سالہا سال میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں لیکن پھر اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تو شادی کا فیصلہ کرتے ہیں ورنہ بڑی آسانی سے اپنی راہیں علیحدہ کر دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں رہتے اور دیکھتے ہوئے ہمارے معاشرے کے افراد کے ذہنوں میں بھی نکاح کی اہمیت، پاکیزگی اور تقدس ختم  ہوتا جا رہا ہے جبکہ یورپین ممالک میں شادی کا فیصلہ لینے میں مرد حضرات اس لئے کتراتے ہیں کہ وہاں کے میرج لاء کے مطابق طلاق کی صورت میں شوہر اپنی 50 فیصد جائیداد بیوی کو دینے کا مجاز ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے افراد وجوہات کو نظرانداز کرتے ہوئے بس ان کے کلچر سے شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ اب اُنکے نزدیک شادی کرنا اور کسی بھی معمولی بات پر طلاق دے دینا کوئی معیوب بات نہیں۔ آپ نے اپنے اردگرد لازمی سنا ہوگا کہ لڑکی سمجھ نہیں آئی اس لیے طلاق دے دی یا لڑکی کے میکے والے معاملات میں مداخلت کرتے تھے اس لئے طلاق دے دی۔ اسی طرح لڑکی کو بات کرنے کا طریقہ نہیں تھا، تیار ہونے کا سلیقہ نہیں تھا، ساس اور نندوں سے نہیں بنیں یا جہیز میں ہماری امید کے مطابق نہ لائی ایسی بے معنی باتوں پر طلاق دی جا رہی ہے۔ آج کل لڑکے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ انکے سسرالی مالی طور پرانکی مدد کریں اور لڑکی والے ان کی امید پر پورا نہیں اتر پاتے تو وہ اس لڑکی کو چھوڑ دوسری کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام ایسی معمولی وجوہات پر طلاق دینے کا حق نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ شادی کرنے سے انسان کا آدھا دین مکمل ہو جاتا ہے ذرا سوچیے کہ جس فریضے کو سرانجام دینے سے آدھے دین کی تکمیل کی ضمانت دی جارہی ہو اس کی دین میں کتنی اہمیت ہوگی اور معمولی بات پر اس کو ختم کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے نکاح کرو، طلاق نہ دو، اس لیے کہ طلاق دینے سے عرشِ الہی لرز اٹھتا ہے۔ طلاق اور خلع کی شرح میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ مردوں میں دوسری شادی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ہمارے معاشرے میں سنتِ نبویﷺ کا نام لے کر دو، تین یا چار شادیاں کی جاتی ہیں اور اکثر لوگ فرض ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ جس کا سبب ان افراد کی دین سے دوری ہے کیوں کہ اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے۔ اور اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اسلام سے قبل عربوں میں سینکڑوں بیویاں رکھنے کا رواج تھا لہذا اسلام نے بیویوں کی حد بندی کردی کہ چار سے زائد بیویاں جائز نہیں اور دوسری شادی میں بھی یہ شرط لگائی کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم اپنی بیویوں میں عدل نہ کر سکو گے تو پھر تمہیں ایک ہی شادی کی اجازت ہے. طلاق میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ ہمارے اپنے افراد ہیں۔ ہمارے شوبز کے ستارے جن کو ہماری قوم آئیڈیلائز کرتی ہے ان کے رویے ہیں۔ آپ کو آج کل زیادہ تر شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد “سنگل پیرنٹ” دکھیں گے اور ان میں سے بعض خواتین مارننگ شوز یا دیگر ٹاک شوز میں اپنی زندگی کے متعلق بتاتے ہوئے ایک بے حیائی کے نئے کلچر کو پروان چڑھاتی دیکھیں گی کہ “میری میرے شوہر سے طلاق ہو گئی ہے پر ہم اب بھی اچھے دوست ہیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں بچوں کو محسوس نہ ہو اس لیے ان کی خاطر ہم ملتے ہیں”۔ یہ کس قسم کے اطوار ہیں؟ یہ اجازت انکو کونسا دین دے رہا ہے؟ کیا ان کو یہ علم نہیں کہ طلاق کے بعد وہ ایک دوسرے کے لیے نا محرم ہو جاتے ہیں؟ اور کسی صورت انکا ایک دوسرے سے تعلق رکھنا جائز نہیں۔ ٹی وی پر آئے دن اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی یہ باتیں سن کر اس قوم کے نوجوان نسل پر کتنے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اسکا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ کس طرح ان کے ذہنوں میں نکاح کا تقدس پامال ہورہا ہے۔ قصہ مختصر ملک میں پھیلی اس برائی کو رُکنے کیلیے دورِ حاضر کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایسے سخت قوانین رائج کیے جائیں جن کی وجہ سے طلاق کا فیصلہ لینا ہر شخص کے لئے گڑیا گڈے کا کھیل نہ بن سکے اور بہت جائز وجوہات کی بنیاد پر ہی مجبور ہو کر طلاق یا خلع کا فیصلہ لیا جائے۔ بات محض قانون بنانے کی حد تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس قانون پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے کیونکہ ہمارے یہاں مسئلہ قانون کی کمی نہیں بلکہ اس پہ عمل درآمد کی کمی ہے۔ اسکے علاوہ بزرگوں کو چاہیے ایسے معاملات میں آگے بڑھ اپنا کردار ادا کریں اور شادی کو نبھوانے کی کوشش کریں جس طرح پہلے زمانے کے بزرگ اپنا فرض سمجھ کر شادی کے معاملات میں کچھ خرابی آتی دیکھتے تو اس کو اپنی عقلمندانہ اور دوراندیش سوچ سے حل کرتے اور طلاق اور خلع کی نوبت ہی نہ آنے دیتے۔ اس کے علاوہ علمائے وقت اور مفتیانِ اکرام پر بھی لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا حق ادا کریں اور اپنے بیانات اور وعظ میں دیگر موضوعات کے بجائے شادی طلاق اور خلع کے معاملے پر زیادہ سے زیادہ بات کریں تاکہ نوجوان نسل طلاق جیسے فتنے کو برا سمجھیں۔ بصورت دیگر آنے والے زمانے میں پاکستانی معاشرہ اپنے خاندانی نظام، اخلاقی اقدار اور روایات سب کھو بیٹھے گا۔