خان صاحب وزیر ریلوے سے استعفیٰ لیں

سوموار کے دن صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے قریب سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس کے درمیان ہونے والے تصادم میں تقریبا 30سے زائدمسافر شہادت کا مرتبہ پاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے اسکے علاوہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ترجمان ریلوے کے مطابق لالہ موسی سے کراچی جانے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جا گریں اور راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان سے ٹکراگئی۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں حادثے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ’آج صبح ٹرین کو گھوٹکی کے مقام پر پیش آنے والے ہولناک حادثے اور اس کے نتیجے میں 30 مسافروں کی موت پر بے حد رنجیدہ ہوں۔ وزیر ریلوے جائے حادثہ پر پہنچنے، زخمیوں کیلیے مکمل طبی امداد کا اہتمام یقینی بنانے اور ہلاک افراد کے اہلخانہ کو بھرپور معاونت فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔انھوں نے مزید لکھا کہ اس کے ساتھ ریلوے کے حفاظتی نظام میں نقائص کی نشاندہی کیلیے جامع تحقیقات کے احکامات بھی صادر کر رہا ہوں۔دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے 24 گھنٹے کے اندر حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔اس حادثہ کے بعد سب سے اہم اور پریشان کن بیان پاکستان ریلوے کے سکھر ڈویژن کے ڈی ایس کا تھا جن میں انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک ماہ قبل تحریری طور وزارت ریلوے کو سکھر ڈویژن کے 13 مقامات کے خراب ہونے کی نشان دہی کی تھی اور ریلوے ٹریک خراب ہونے کی رپورٹ پہلے ہی جمع کروادی تھی۔اس سے بڑا ظلم بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ محکمہ ریلوے کے افسران اپنے محکمہ کو ممکنہ حادثات سے آگاہ کرتے رہے ہیں مگر حکام بالا کی جانب سے مجرمانہ خاموشی کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ ہم حادثہ کے موقع پر رسمی طور پر سرکاری بیان جاری کردیتے ہیں جس میں حادثہ پر قیمتی جانی و مالی نقصان پر افسوس اور مالی امداد کے اعلانات شامل ہوتے ہیں۔ مگر حادثہ کی وجوہات جاننے اور مستقبل میں ان حادثات سے بچائو کی تدبیریں کرنے کی بجائے اگلے سانحہ اور المناک حادثہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں وزیر پاکستان جناب عمران خان صاحب کا جولائی 2019 صادق آباد ٹرین حادثہ کے موقع پر ٹویٹر پر جاری بیان ’’صادق آباد ٹرین حادثہ نہایت افسوسناک ہے۔لواحقین کے غم میں برابر کا شریک اور زخمیوں کی جلد/مکمل شفایابی کیلئے دعاگو ہوں۔ وزیر صاحب کو ریلوے انفراسٹرکچر سے برتی جانے والی دہائیوں پر محیط غفلت کے فوری ازالے اور سیکیورٹی سٹینڈرڈز یقینی بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے‘‘۔یقینی طور وزیر اعظم کے جولائی 2019 اور جون 2021 میں جاری بیانات میں انتہا ء درجے کی مماثلت ملتی ہے۔وہی رسمی افسوس کا اظہار، وہی ریلوے میں پائے جانے والے نقوص پر رسمی بیان بازی مگر افسوس کہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔جولائی 2019 کے ٹرین حادثہ کے موقع پر اس وقت کے سیکرٹری ریلوے سکندر سلطان نے کہا تھا کہ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات میں سرِفہرست ریلوے ٹریک سے متعلقہ مسائل ہیں جبکہ رولنگ سٹاک (ریل کے انجن اور بوگیاں) اور ریلوے سگنل کا نظام بھی حادثات کی وجہ بنتا ہے۔سکندر سلطان نے کہا تھا کہ ان مسائل کے علاوہ ہیومن ریسوس یا افرادی قوت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ 2019 میں پاکستان ریلوے میں 23 ہزار سے زائد ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل سٹاف کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی تھیں۔ 2019 ہی میں سکندر سلطان نے کہا تھا کہ ٹریک کے حوالے سے سندھ میں سکھر ڈویژن میں صورتحال اچھی نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے پاکستان کے حکمرانوں نے محکمہ ریلوے میں آئے روز حادثات کے سدباب کے لئے 2019 سے لیکر آج تک کیا کیا؟ خصوصی طور پر سکھر ڈویژن جو کہ پہلے ہی ریلوے ٹریفک کے لئے خطرناک اور حساس قرار دے دیا گیا تھا ، اس سلسلہ میں حکومت وقت نے کیا اقدامات کیے؟ پاکستان میں ٹریفک حادثات خصوصاً ریلوے کے حادثات کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے ، مگر کیا یہ افسوسناک پہلو نہیں ہے کہ تبدیلی کی دعوے دار جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی پاکستان ریلوے کی بہتری کیلئے کچھ خاطر خواہ اقدامات کرتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ یاد دہانی کے طور پر نئے پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب بطور اپوزیشن لیڈر یہ کہا کرتے تھے کہ ــ ’’دنیاکے کسی ملک میں جب ریلوے حادثہ ہوتا ہے تو وزیر ریلوے استعفیٰ دیتا ہے یا اس سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے تاکہ حادثہ کی شفاف تحقیقات ہوسکیں۔ 126 روزہ تاریخ ساز دھرنا کے دنوں میں تاریخی کنٹینر پر کھڑے ہوکر جناب عمران خان صاحب جنوبی کوریا کی مثال دیا کرتے تھے کہ جنوبی کوریا میں دریا میں کشتی الٹنے کے بعد جنوبی کوریا کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ وزیراعظم کشتی نہیں چلا رہا تھا۔ مگر افسوس اب جبکہ عمران خان صاحب مسند اقتدار پر براجمان ہیں، انکے دور اقتدار میں درجن سے زیادہ ریلوے کے بڑے برے حادثات ہوچکے ہیں، جنکی تحقیقاتی تفصیلات عوام الناس دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے روائتی طور پر اس حادثہ کی ذمہ داری بھی سابق وزیر ریلوے سعد رفیق پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔فواد چوہدری سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا موجودہ وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی سے استعفیٰ لیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ سعد رفیق (سابق وفاقی وزیر ریلوے) کے گناہوں پر اعظم سواتی کیسے استعفیٰ دیں۔موجودہ دور اقتدار میں ہونے والے حادثات، کرپشن اسکینڈلز، مہنگائی، ڈالر ریٹس، بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے وغیرہ جیسے کسی بھی معاملہ پر حکومت سے سوال پوچھ لیا جائے تو نئے پاکستان کے حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ انتہائی بے حسی سے ہرمعاملہ کا الزام موجودہ اپوزیشن پر لگا دیتے ہیں۔چونکہ ریلوے پر سفر کرنے والے افراد میں پاکستانی اشرافیہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اورریلوے مسافروں کی زیادہ تر تعداد غریب، متوسط آمدنی والے طبقہ پر مشتمل ہوتی ہے ، شاید اسی وجہ سے ریلوے حادثات پرحکمران طبقہ کی جانب سے انتہائی بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بس رسمی افسوس اور چار دن میڈیا پربھاگ دوڑ کرنے کے بعد کسی دوسرے حادثہ کا انتظار کیا جاتا ہے۔ نئے پاکستان میں ریلوے کے سابق وزیر جناب شیخ رشید صاحب کے دور میں ریلوے میں کئی بڑے حادثات ہوئے، مگر موصوف کو ریلوے کی وزرات سے ہٹانے کی بجائے پاکستان کی سب سے طاقتور وزرات یعنی وزارت داخلہ سونپ دی گئی۔ پاکستانی عوام اس وقت وزیر اعظم پاکستان سے یہ بھرپور مطالبہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ بقول انہی کے (بطور اپوزیشن لیڈر) فرمودات پر اب عملدرآمد کروانے کا وقت آپہنچا ہے، اسلئے وزیر ریلوے سے فی الفور استعفیٰ لینا چاہئے تاکہ پاکستان میں اک مثال قائم ہوسکے۔ اورریلوے کی وزارت خود عمران خان صاحب اپنے پاس رکھیں ۔ اسی کیساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق استوار کرنے کے لئے فی الفور کابینہ میں ٹاسک فورس بنائی جائے جو پاکستان ریلوے میں موجود مسائل کے تدارک کیلئے پالیسی بنائے اور عملی اقدامات کو یقینی بنائے اور ان تمام مراحل کی نگرانی خود وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو کرنی چاہئے۔ تاکہ ریلوے حادثات کی ہر ممکن طریقہ سے روک تھام کی جاسکے۔کیونکہ ایک انسانی جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔

حصہ