شاہانہ قصیدوں کے بے ربط قوافی

اختلاف برائے اصلاح اور اختلاف برائے اختلاف میں واضح فرق یہ ہے کہ اول الذکر سے تجسس وتحقیق،غوروفکر،دلائل احسن کے ساتھ علمی اضافہ کے ساتھ ساتھ تہذیب ومعاشرت اور باہمی تحسین واوصاف کے در بھی وا کرتا ہے۔جبکہ ثانی الذکر کی دنیا میں ایسی کبھی کوئی گنجائش نہیں رہی وہ اس لئے کہ ایسے خیالات کے حامل افراد کے پاس نہ کوئی واضح دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مستند حوالہ ہوتا ہے۔

دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس

عجب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

ہاں اختلاف برائے اختلاف سے انتشار،فتور،تکرارباہم دست وگریبان کو سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔وہ اس لئے کہ جن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی ان کی آواز بہت اونچی ہوتی ہے۔اسی لئے شائد مولانا روم فرماتے ہیں کہ اپنی آواز کو پست اور دلیل کو اونچا رکھیںکیونکہ جو بادل گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ہیں۔

اختلاف برائے اختلاف کے متحمل دانش و حکمت سے خالی الذہن طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کا کوئی مقصدِ زیست نہیں ہوتا۔انہیں تو بس اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ان کی دانست میں مفادات کا حصول ہی دراصل حاصل زیست ہوتا ہے۔اسی لئے ایسے افراد اپنی خواہشات کا محل کمزور لوگوں کے خیالات کی نسل کشی پر تعمیر کرتے ہیں۔انہیں صرف اپنی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔اس لئے یہ لوگ اپنی جھونپڑی بچانے کے لئے کسی کے محل کو بھی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔اللہ ایسے افراد سے ہم سب کو خاص کر ملک عزیز کو پناہ میں رکھے۔

مفاد پرست افراد کسی نظریہ کی تشہیر کے لئے نہیں بلکہ چند طاقتور مفاد پرست عناصر کی کاسہ لیسی بطور نیبو نچوڑ کرتے ہیں۔تاکہ مستقبل قریب وبعید میں یا جب کبھی موقع دستیاب ہو اپنے مفادات کے ھصول کے لئے انہیں ذریعہ بنا لیا جائے۔مجھے بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس سماجی برائی میں پاکستان کا ہر طبقہ فکر اور ادارہ ملوث ہوتا جا رہا ہے۔خصوصا ہمارا میڈیا اور اس سے وابستہ کچھ مفاد پرست عناصر۔وگرنہ تو ہمیشہ جابر سلطاب کے سامنے کلمہ حق کی صدائیں بلند کرنے والے،حیدو وٹیپواور مجدد الف ثانی جیسے کردار ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں۔جبکہ دشمنوں سے وفاداریوں کا اظہار اور ساتھ غداروں کے ماتھے کا کلنک ثابت ہوئے ہیں،افسوس کے وہ بھی ہماری تاریخ کے کردار رہے ہیں۔یاد رکھئے تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے ،آپ کے آج کو مستقبل کا کل بنا کر ایسے پیش کرے گی جیسے آپ آج ہو۔اب آپ پر انحصار ہے کہ آپ تاریخ کے صفحات پر کس طرح سے پیش ہونا چاہتے ہیں۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ جو ایک فضول سی بحث طلعت حسین اور نجم سیٹھی کے درمیان چل نکلی ہے کہ کس نے کیا کیا؟اور کس طرح سے کس نے کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا ۔کس کس نے اپنے قلم کی حرمت کو چند سکوں ،پلاٹ یا مفادات کے لئے پامال کیا۔دونوں طرف سے دلائل وتنقید سے کیا ثابت کیا جا رہا ہے کہ ہمارے عزائم و کرتوت کیا ہیں؟میڈیا پر ایسی بحث و تمحیص کے بعد تو میرا شورش کاشمیری کی اس نظم پر ایمان اور بھی پختہ ہو جا تا ہے جو انہوں نے آج سے چند دہائیاں قبل لکھی تھی۔اشعار پڑھ کر آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ معاشرتی حالات اور افراد کے رویوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔کل بھی کرپشن کا بازار گرم تھا اور آج بھی حالات یوں کے توں ہیں۔شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ

ہم اہل قلم کیا ہیں؟

الفاظ کا جھگڑا ہیں بے جوڑ سراپا ہیں

بجتا ہو اڈنکا ہیں ہر دیگ کا چمچہ ہیں

ہم اہل قلم کیا ہیں؟

ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور کٹا کھل گیااور وہ ہے اسد طور کا واقعہ۔اب اس پر بھی خوب سیاست چمکائی جا رہی ہےاور مجھے حیرت ہوئی کہ ایک ایسے انسان کے لئے جس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ ایک ذاتی نوعیت کا واقعہ ہے یا واقعی کسی ایجنسی کا اس کے پیچھے ہاتھ ہے؟اور اگر ایسا ہے تو پھر ایجنسی نے ایسے گمنام صحافی کو ہی کیوں نشانہ بنایا۔

کسی معروف اہل قلم کو اس کا نشانہ بنایا جاتا۔ہاں تفتیش کے بعد اگر واقعی کوئی ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد مل جاتے تو پھر ایک مناسب لائحہ عمل بنا کر وہ سب احتجاج کیا جاتا جس کا صحافی کیا ہر پاکستانی کوآئینی حق ہے۔انتہا یہ ہے کہ پوری پی ڈی ایم بھی اس کی عیادت اور خیریت کے لئے اس کے پاس پہنچ گئی۔میرا اہل قلم اور سیاسی دانشوروں سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ کیا ہر واقعہ کے لئے سیاست چمکانا ہی اب سیاستدانوں کا کام رہ گیا ہے۔جبکہ خود بھی یہ سیاستدان اپنے اپنے دور اقتدار میں ایسے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔خدا کے لئے ہمیں اپنے ملک کا بھی خیال رکھنا ہے۔اسد طور ہمارے قبیل کا ہی ایک فرد ہے اس کے ساتھ زیادتی کو زیادتی ہی کہا جا سکتا ہے لیکن اس زیادتی کے کرداروں کا پہلے تعین کر لیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔اس لئے ہمارے پاس کو قلم ہے وہ اس لئے نہیں کہ ہم قانون سے ماورا کوئی اور مخلوق بن جائیں بلکہ اس لئے کہ قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہر اس کرپشن کو بے نقاب کریں جو اس معاشرہ کے لئے ناسور بنتی جا رہی ہیں۔ شورش کاشمیری کے خیالات کی عملی تفسیر نہ بنیں کہ

مشہور صحافی ہیں عنوان معانی ہیں

شاہانہ قصیدوں کے بے ربط قوافی ہیں

ہم اہل قلم کیاہیں ؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔